• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں برسوں سے گشت کرنے والا ایک سوال جو تمام سوالوں پر بھاری ہے سوائے زرداری صاحب کے، وہ سوال ہے کہ پاکستان میں کرپشن ختم کیوں نہیں ہوتی؟ اس سدابہار سوال کے جواب میں آپ کو میں اردو کے ایک کلاسک افسانے کا مختصر خلاصہ سنانا چاہتا ہوں۔ آپ کو اپنے سوال کا بھرپور جواب مل جائے گا۔ افسانہ ستر اسی برس پرانا ہے مگر آج بھی تروتازہ ہے۔ افسانے کا عنوان ہے ، ’’گڑھا نہیں بھرتا‘‘۔ افسانے کا محل ووقوع ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ، ہندوستان۔ایک انگریز انجینئر کو دور دراز کی تحصیل سے ایک پٹواری ہر تیسرے مہینے ایک درخواست بھیجا کرتا تھا۔ درخواست میں پٹواری ایک روڈ کی مرمت اور روڈ میں پڑا ہوا گڑھا بھرنے کے لئے کچھ رقم کا تقاضا کرتا تھا۔ سول انجینئر اسے رقم بھجوادیتا تھا۔ جب ایک عرصے تک تسلسل سے انگریز انجینئر کو پٹواری کی درخواستیں ملنے لگیں تب اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ سوچ میں پڑ جاتا کہ وہ کیسا گڑھا ہے جو کبھی نہیں بھرتا اور اسے ہر تین ماہ بعد گڑھا بھرنے کے لئے پٹواری کو ایک اچھی خاصی رقم بھجوانی پڑتی تھی؟
تب انگریز انجینئر نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جاکر دیکھے گا کہ وہ کس قسم کا گڑھا تھا جو برسوں سے کبھی نہیں بھرتا تھا۔ انجینئر نے پٹواری کو اپنی آمد کے بارے میں کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے اپنے دورے کا پروگرام مخفی رکھا اور ایک روز سفر پر روانہ ہوا۔ تھکادینے والی مسافت طے کرنے کے بعد انجینئر تحصیل پہنچا۔ پٹواری اپنے اعلیٰ افسر کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے افسر کا استقبال کیسے کرے اور اسے کہاں بٹھائے۔ گورے افسر کی آئو بھگت اور خاطر تواضع کیسے کرے؟ گورے افسر نے اپنے ماتحت کی سراسیمگی بھانپ لی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے تحصیل کے سرسبز کھیت اور مناظر کی بڑی تعریف کی۔ پٹواری کی جان میں جان آئی۔ گورے افسر نے تحصیل کے دیگر خوبصورت مناظر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ پٹواری بادل نخواستہ اپنے افسر کے ساتھ کھیت کھلیانوں میں پگڈنڈیوں پر چلنے لگا۔ گھومتے پھرتے گورے افسر نے اچانک وہ گڑھا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جو کبھی نہیں بھرتا تھا۔ پٹواری حواس باختہ ہوگیا۔ اپنے افسر کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ انٹ کی شنٹ باتیں کرنے لگا۔ ’’سر، صبح ہونے سے پہلے تمام تحصیل میں چڑیاں چہچہانے لگتی ہیں۔ ندی نالے گیت گانے لگتے ہیں۔ مہکی مہکی خوشبو ماحول کو معطر کردیتی ہے۔ تتلیاں رقص کرنے لگتی ہیں‘‘۔
گورے افسر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ میں محسوس کرسکتا ہوں کہ یہاں کی صبح اور شامیں کس قدر دلفریب ہوں گی‘‘۔ اور پھر اچانک اس نے پوچھا۔ ’’ وہ گڑھا کہاں ہے جو کبھی نہیں بھرتا؟‘‘ پٹواری گھبرا گیا۔ ’’سر ، آپ گڑھا صبح دیکھ لیجئے گا۔ یہاں سے کافی دور ہے۔ اور پھر سورج بھی غروب ہونے کو ہے‘‘۔ اور پھرگھبرایا ہوا پٹواری بے تکی باتیں کرنے لگا۔ افسر نے مسکرا کر پٹواری کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’سورج طلوع ہونے سے پہلے کل میں یہاں سے روانہ ہو جائوں گا۔‘‘ پٹواری نے جھٹ سے کہا۔ ’’سر تو پھر آپ اگلی مرتبہ وہ گڑھا دیکھ لیجئے گا‘‘۔ افسر نے دور تک دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ گڑھا کیوں نہیں بھرتا تاکہ اس کو بھرنے کے لئے میں نے جو رقم مختص کی ہے اس میں مناسب اضافہ کرسکوں۔‘‘
پٹواری بیچارے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ کیسے اپنے افسر کو گڑھا دیکھنے کی خواہش سے باز رکھے! افسر ہٹا کٹا تھا۔ وہ لگاتار اپنے پٹواری کے ساتھ کھیتوں سے گزرتی ہوئی پگڈنڈیوں پر اطمینان سے چل رہا تھا۔ ندی نالوں اور تالابوں کو پار کررہا تھا۔ آخرکار پٹواری تھک گیا ۔ کیسے نہ تھکتا ، بے انتہا موٹا جو تھا۔ ہانپنے لگا۔ کہنے لگا۔ ’’سر، واپس چلیں؟ گورے افسر نے اپنی خفگی پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ ’’آخر تم مجھے وہ گڑھا دکھاتے کیوں نہیں جو کبھی نہیں بھرتا؟‘‘
پٹواری نے سرجھکا دیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش کھڑا رہا پھر اس نے اپنی قمیص کا دامن اوپر کردیا۔ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پٹواری نے کہا۔ ’’سر ، یہ ہے وہ گڑھا جو کبھی نہیں بھرتا۔‘‘
قاضی عبدالستار کا افسانہ، ’’گڑھا نہیں بھرتا‘‘۔ میں نے آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے پڑھا تھا۔ افسانہ میرے دل اور دماغ پر چھاگیا تھا۔ آدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ افسانہ ہو بہو من و عن سنانا میرے لئے امکان سے باہر ہے۔ اس لئے افسانہ کے خلاصہ میں مکالمے بھی من و عن نہیں ہیں، مگر اصل کا مفہوم بیان کرتے ہیں۔ میرے لئے افسانے کا موضوع اہم ہے۔ میں افسانے کا موضوع آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا نہیں لگتا کہ قاضی عبدالستار نے یہ افسانہ ہمارے موجودہ معاشرے کا جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے! لگتا ہے۔ ایک حد تک لگتا ہے مگر مکمل طور پر نہیں۔ ہمارے ہاں ایک کی بجائے دوگڑھے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔ ایک گڑھا پٹواری کا اور ایک گڑھا افسر کا۔ اچانک تیسرے گڑھے کا پتہ تب چلتا ہے جب کوئی بھلا مانس دو گڑھوںکا کھوج لگانے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تیسرا گڑھا اپنے لئے بنالیتا ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ ہمارا ملک گڑھوں سے بھرا ہوا ہے۔ چپے چپے پر گڑھے ملتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔ ہمارے ہاں گڑھے بنانے والے، اور گڑھے بنانے والے اور گڑھے بھرنے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔
تازہ ترین