گناہوں کا اعتراف اور قوم سے معافی مانگنا ہو گی ۔ سیاسی عدم استحکام وطنی جان کے درپے، ذمہ دار کون؟ اس حال تک پہنچانے والےبیشتر اللہ کے حضور حساب کتاب دینے میں مصروف، بڑی تعداد آج بھی سرعام دندنا رہی ہے۔ زندوں میں کوئی ایک بھی جو اپنے حصہ کے گناہوں کا اقرار کر پائے جبکہ سب باجماعت شریکِ جرم ہیں۔ زمانہ قدیم سے وطنی طاقت کا ایک ہی تقاضہ، ملک بچانا ہے تو اقتدار میرے پاس رہنا ہے۔ کاش! سیاستدان اور ادارے اپنی اپنی ذات منہا رکھتے، مملکت کو اپنی ذات پر ترجیح دے پاتے۔
چند روز پہلے جنرل عاصم منیر نے بہاولپور میں پُرجوش نوجوان خواتین و حضرات سے خطاب فرمایا! ’’جب تک نوجوان نسل پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا"، اس میں دورائے نہیں ہیں۔ رائے عامہ کا فوج کے پیچھے کھڑا ہونا ریاستی مجبوری بلکہ ضروری ہے۔ اگر آج رائے عامہ دور ہے تو ذمہ دار کون ہے؟ تعین کرنا ہو گا۔ بلاشبہ حکومت، اداروں کے حق میں رائے عامہ کی غیر موجودگی، قوموں اور ملکوں کو گھائل رکھتی ہے۔ ریاست کا مستقبل سیاسی استحکام سے وابستہ، بذریعہ طاقت حصول ناممکن ہے۔ آج سیاست عمران خان کے قبضہ استبداد میں، چاہے کسی کی آن جائے۔ پچھلے تین سالوں سے عمران خان کیخلاف اَن گنت ہنر آزمائے گئے، ہر ہنر عمران کی مقبولیت بڑھا گیا۔ رہنما اصول اپنایا کہ ’’جیل عمران خان کو توڑ ڈالے گی‘‘۔ میری رائے مختلف، جیل کبھی کسی سیاستدان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ عمران خان تو روزانہ کی بنیاد پر جیل کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آج تک جلسے جلوس، ریلیاں، مضامین، خطوط سب اسی زمرے میں کہ رائے عامہ کا خون گرمانے کا بہانا ڈھونڈ رکھا ہے۔
تین سال قبل پہلی دفعہ عمران خان سیاسی مقبولیت سے متعارف ہوا تو رائے عامہ کو اپنے حق میں اُبھرتے دیکھا، پھولے سمانا بنتا تھا۔ نئی نویلی سیاسی مقبولیت میں اپنا حصہ صفر "عمران مکاؤ" اسکیم چلانے والوں کی مہربانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ عمران خان کو بخوبی ادراک طاقت سے ٹکر جہاں اقتدار سے دور لے جاتی ہے وہاں رائے عامہ بتدریج حق میں جوق در جوق رہتی ہے۔ اندر خانہ یہ خواہش موجود کہ اگر مملکت میری نہیں تو پھر کسی کی نہیں۔ اب جبکہ ’’مقبول سیاست‘‘ قدم چوم چکی، اقتدارکی خاطر قربان نہیں کرنی۔ علیحدہ موضوع کہ ’’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف‘‘، البتہ اپنی ہی پارٹی کے کرتا دھرتا گھٹنے ٹکوا سکتے ہیں۔ عمران خان کی اصل کامیابی، 3سال سے گلی بازاروں کا سیاسی موضوع، ہر سُو زیر بحث عمران خان اور بس، ریاست کے اعصاب پر سوار، کس کو کریڈٹ دیں؟ کس کی محنت شاقہ کہ عمران سیاست کو پَر لگ چکے ہیں، رفعتیں پاچکا ہے۔
بدنصیب ملک!7دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام معمول ہے۔ ایک لاوا پھٹنے کو ، مملکت کسی وقت بھی بھونچال کی گرفت میں ہوگی۔ حالات کا جبر! ایسا وقت بھی آنے کو کہ بدترین مخالف کو اقتدار حوالے کرنا طاقت کی مجبوری بن جائے۔ میرا خدشہ! 3 سال بعد یا اس سے کچھ پہلے، شہباز حکومت، طاقت کا جب بوجھ بن جائے گی تو بوجھ اُتارنا بنتا ہے۔ ملک بچانے کیلئے PPP اور PTI کا امکانی اتحاد شاید اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ البتہ عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنا ادارتی فیصلہ جو اگلے 18سال نافذ رہنا ہے۔ پچھلے 70سال سے سیاستدان ، ادارے سب شریک جرم، جن کے سبب بیمار ہوئے ، ان سے اب دوا لینا نہیں بنتی۔ جنرل باجوہ عمران جوڑی کی مجرمانہ شراکت داری تہلکہ خیز، 6سال کیا کیا گُل نہیں کھلائے۔ عمران خان کی جو سیاست آج حرام اور شجر ممنوعہ، اسکی حلال شجرکاری اور آبیاری باجوہ پارٹی ہی نے تو کی تھی۔ موصوف ریل میں ہو یا جیل میں، دونوں رونقیں جنرل باجوہ کی عطا کردہ ہیں۔ پہلے اقتدار دیا اور پھر علیحدگی پر مضبوط رکھا کہ شہباز حکومت کو گھر بھیجنا تھا۔ امابعد نگران حکومت کے ذریعے ادارہ پر باجوہ کنٹرول تاحیات رہنا تھا۔ غلطی بانجھ نہیں ہوتی، تب سے چل سو چل، "عمران مکاؤ" کی سنجیدہ کوششیں ناکام۔ جہاں عمران خان بوجوہ اپنے طور فرسٹریشن کا شکار، وہاں ادارے کی فرسٹریشن بھی دیدنی ہےکہ سب تدبیریں الٹی پڑ چکی ہیں۔
سانحہ 9مئی کو جس طرح ہینڈل کیا گیا، حاصل حصول رائی برابر جبکہ بدنامی پہاڑ جتنی، بقلم خود سانحہ کی ساکھ برباد کی۔ پہلے قوم کو بتایا کہ سانحہ 9مئی ناقابل معافی جرم ہے پھر تھوک حساب معافیاں دیں، استحکام پاکستان پارٹی بنائی، اپنے موقف کو کمزور کیا۔ ماسوائے فوجی عدالتوں کی سزائیں، کوئی اور کامیابی نہ ملی۔ عمران خان کو فوجی عدالتوں سے سزا دلوانی تھی، کیا اب ایسا کرنا ممکن ہے؟۔ یاسمین راشد، میاں محمود رشید، اعجاز چوہدری، عمر چیمہ اور فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 60 عام کارکنوں پر سارا غصہ نکالا۔ اب جبکہ آئینی عدالت میں آرمی ایکٹ پر فیصلہ آئندہ ہفتہ متوقع، اگر آئینی بینچ نے سویلین کے ٹرائل کی اجازت دی تو عدالتی ساکھ ڈھیر اور اگر اجازت نہ دی تو اسٹیبلشمنٹ کا رہا سہا وقار برباد۔ عمران خان مزے میں کہ کارکنوں کی سانحہ پر رہائی یا سزا، دونوں میں فائدہ کہ ’’خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘۔ غصہ PTI کے چند درجن کارکنوں تک محدود، اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ جیل کے اندرسب جیل، PTI ورکرز کو ہائی سیکورٹی زون میں دہشتگردوں کیساتھ رکھا جا رہا ہے۔ جیل مینویل کے برخلاف بیشمار سہولتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی بے بسی کا عینی شاہد ہوں۔ 7دہائیوں سے اکابرین ملت کا مرضِ متعدی، بلکہ نفسیاتی مسئلہ بھی یہ دعویٰ کہ ’’مملکت کو ٹھیک ڈگر پر چلانے کی نازک ذمہ داری کے متحمل صرف انکے مضبوط کندھے ہی ہیں‘‘۔ کاش کہ موجودہ سیاستدان اور ادارے صدق دل سے اقتدار سے برات لیتے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے کہ ’’ہم لوگ ہی مملکت کی بربادی کے ذمہ دار ہیں، معافی کے خواستگار ہیں‘‘۔ ہے کوئی جو اپنی ذات کو منہا کرکے پاکستان کو مقدم رکھے۔ اگر آج ادارے، سیاسی جماعتیں، نواز شریف، عمران خان، بھٹوز، فضل الرحمان وغیرہ باجماعت خلوص دل سے اپنے حصہ کے گناہوں کا اعتراف کر یں اور اپنے مفادات کو پاکستان کے سامنے ڈھیر رکھیں، یقین کامل! مملکت خداداد کو ساتویں آسمان تک پہنچنے کیلئے پَر لگ جائیں گے۔