• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ گزشتہ سال جون کا واقعہ ہے جب امریکہ کے مشہور تھنک ٹینکWoodrow Wilson Center میں ہمارے ادارے کے اشتراک سے سالانہ پاکستان کانفرنس ہو رہی تھی۔ کانفرنس کا بنیادی موضوع پاکستان امریکہ تعلقات تھا۔ جب اچانک ایک سیشن میں سوال کیا گیا کہ پاکستان تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے امریکہ کو کیا Offer کر سکتا ہے تو کچھ دیر کیلئےخاموشی چھا گئی۔ واقعہ سنانے سے پہلے کچھ بات ولسن سنٹر کی ہو جائے۔ ولسن سنٹر امریکہ کے ان بڑے تھنک ٹینکس میں شامل ہےجو کانگریس کے چارٹر کے تحت قائم ہوئے۔ اسکا شمار پہلے دو یا تین تھنک ٹینک اداروں میں ہوتا ہے جو عالمی ایشوز پر قانون ساز ادارے کو درپیش مسائل پر پالیسی بنانے کے حوالے سے سفارشات فراہم کرتے ہیں اور کانگریس میں انکی ریسرچ اور سفارشات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ولسن سنٹر ہر سال ایک پاکستانی کو پاکستان فیلوشپ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس تھنک ٹینک کے ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہونیوالی کانفرنس میں اسکالرز، ماہرین، سفارتکار ، سرمایہ کار اور پروفیشنلز شریک تھے۔ ایک سیشن میں تو پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے سابق امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل ،این پیٹرسن اور کیمرون منٹر بھی موجود تھے۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے پاکستان امریکہ کو کیا خاص چیز آفر کر سکتا ہے، کچھ دیر کیلئے سیشن کے شرکاء اور ہال میں خاموشی چھا گئی۔ اس سے پہلے کہ پینل میں سے کوئی جواب دیتا، سامعین میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ملک صرف دہشت گردی کی صنعت کی روک تھام کیلئے تعاون کے علاوہ کیا آفر کرسکتا ہے۔ اس موقع پر ایک سابق امریکی سفیر نے مصنوعات اور خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کیلئے پاکستانی کردار پر بات کی۔ مجھے یہ واقعہ 2021ء میں کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایبی گیٹ پر ہوئے تباہ کن بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ شریف اللہ کی امریکہ کو حوالگی کے موقع پر یاد آیا۔ اس بم دھماکے میں170شہری اور 13امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ شریف اللہ کو پکڑنے کا آپریشن پاکستان اور امریکہ کے سیکورٹی اداروں نے باہمی تعاون اور اشتراک سے کیا ہے۔ شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کرنے پر صدر ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے گرفتاری میں مدد دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس طرح شکریہ ادا کرنے پر پاکستانی حکومت اور ادارے یقیناً خوش ہورہے ہیں کیونکہ یہ واقعہ ایسے حالات میں ہوا ہے جب پاکستانی حکومت اور ادارے انسانی حقوق کی صورتحال، عام انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے عالمی دباؤ کا شکار تھے۔ پاکستانی حکومت اور اداروں کو امریکہ اور امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی تھی۔ اراکینِ کانگریس کے صدر کو خطوط، کانگریس کی سماعت اور کچھ شخصیات پر ممکنہ پابندیوں کیلئے قانون سازی کی کوششوں کے ماحول میں امریکہ کو ہائی پروفائل ٹارگٹ حوالے کرنا اور صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا پاکستانی حکومت کیلئے ریلیف سے کم نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں تعاون کے ذریعے پاکستانی ادارے امریکہ کیساتھ تعلقات کو بہتر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں تعاون کے علاوہ کوئی ایسی چیز ہے جو تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے؟ کیا ہم خطے میں اپنے آپ کو Relevant بنانے کیلئے اپنے آپ کو بہتر انداز میں Place نہیں کر سکتے؟ یوں لگتا ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کے عوض ہم نے امریکہ سے فوجی اور معاشی امداد حاصل کی تھی ، اسی طرح آج بھی ہم اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور کسی انعام و اکرام کے حصول میں امید لئے وہی حربہ استعمال کرنیکی کوشش میں ہیں۔ ذرا اس دور کا گوشوارہ بھی دیکھ لیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا ہم نے اسی ہزار جانوں کی قربانی نہیں دی؟کیا ہماری معیشت کو 130بلین ڈالر کا نقصان نہیں ہوا؟ کیا ہمارے شہر مقتل نہیں بنے؟ کیا ہم نے اپنی وفاداری ثابت کرنے اور تعلقات بہتر کرنے کیلئے اپنی سرزمین پر ڈرون حملے نہیں کروائے؟ کیا ہمیں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ بھول گیا ہے؟ کیا ہم اس دور میں بھی لوگوں کو ان کے حوالے نہیں کرتے رہے؟ ملک ایک دفعہ پھر دہشت گردی اور اور سیکورٹی کے خدشات سے دوچار ہے۔ شریف اللہ کے حوالے کرنے کیساتھ ہی بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا اور قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ہم ایک دفعہ پھر بڑی قیمت چکانے کیلئےتیار بیٹھے ہیں۔Global Terrsiom Indexکے مطابق دہشت گردوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پاکستان اس وقت دوسرے نمبرپرآگیا ہے۔کیا امریکہ کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے دہشت گردی کیخلاف کارروائی اور اس میں تعاون کافی ہے یا کچھ اور بھی کرنا ہوگا؟کیا پاکستان کو اس طرح کی خدمات کے عوض امداد کے چکر میں اسی طرح پھنسے رہنا چاہئے ؟کیا پاکستان کو تجارت کے ذریعے امریکہ کیساتھ اپنے تعلقات کو آگے نہیں بڑھانا چاہئے ؟ کیا اس طرح کا تعاون دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے دیرپا ثابت ہو سکتا ہے؟کیا ہم سیکورٹی پر مبنی تعلقات کو باوقار انداز میں برابری کی بنیاد پر تجارتی تعلقات میں بدل سکتے ہیں؟کیا صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا ہمارے خوش ہونے کیلئے کافی ہے؟اور کیا آئندہ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ اسی طرح رہیگا؟ کیا اسکے ذریعے پاکستانی کمیونٹی کے ایک خاص حصے کی جانب سے حکومت اور اداروں کے خلاف جاری مہم کو ناکام بنانے میں مدد مل سکتی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جنکےجوابات تلاش کرنے کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

تازہ ترین