• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ واخان کوریڈور کہاں ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ واخان افغانستان کے صوبہ برخشاں دور دراز علاقہ میں واقع ایک پٹی ہے جو چین کے صوبہ سنکیانگ تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ دراصل ایک راہداری ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ یہ راہداری پاکستان میں چترال تک لمبی ہے۔ یہاں کی بکھری ہوئی نہایت مختصر آبادی واخی زبان بولنے والے خانہ بدوشوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان سے شروع ہونے والی یہ پٹی افغانستان، خراسان، بلورستان، تاجکستان تک طویل ہے بہت دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں افغانستان کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ واخان کا علاقہ 19ویں صدی کے آخر میں برطانیہ اور روس کے درمیان گریٹ گیم کے دوران ایک بفرزون کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ یہ گریٹ گیم نوآبادیاتی طاقتوں کے درمیان وسطی ایشیا کے کنٹرول حاصل کرنے کیلئے مقابلے کا نام تھا۔ 1895ء میں برطانیہ اور روس کے درمیان ہونیوالے معاہدے کے تحت خراسان، افغانستان کی شمالی سرحد اور افغانستان کو چین کے ساتھ سرحد نامزد کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اونچے اونچے برف پوش پہاڑوں اور جنگلات پر مشتمل اس دور افتادہ راہداری کو زمانہ قدیم سے تجارت کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقےہنزہ سے ہوتی ہوئی اور چترال سے گزر کر یہ راہداری چین اور تاجکستان کو پاکستان سے ملانے کا قدیم راستہ ہے۔

واخان راہداری کی لمبائی 350کلو میٹر اور چوڑائی 26سے 64کلو میٹر تک ہے بعض جگہ پر مزید تنگ ہوکر اس کی چوڑائی 17کلومیٹر تک بھی ہوجاتی ہے۔ یہ انتہائی دشوار گزار اور برف سے اٹا ہوا راستہ ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت نے اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے رہائشی کالونی بنادیا ہے جہاں انکو امریکی اسلحہ، گولہ بارود اور بکتربند گاڑیوں سمیت زندگی کی ہر سہولت مہیا کردی گئی ہے۔ فتنہ الخوارج کے یہ اسلام دشمن اور انسانیت کے قاتل افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں اور بے گناہ شہریوں اور اپنے ملک کی حفاظت پر مامور پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کرتے ہیں اور خود جہنم کا ٹکٹ لے کر واصل جہنم ہوجاتے ہیں۔ ان خارجیوں کو تربیت اور مالی معاونت بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ جو پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلاتی ہے اگر اس کو دہشت گرد ادارہ کہا جائے تو مناسب ہوگا فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے اس اہم تجارتی راہداری کو دہشت گردوں کے لئے کھلی گزرگاہ بنا دیا گیا ہے۔ دہشت گرد اس راستے کے ذریعے پاکستان، چین اور وسطی ایشیا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ واخان کوریڈور اب تک غیرمحفوظ راستہ ہے۔ اگر اس راستے پر مناسب سیکورٹی اقدامات نہ کئے گئے تویہ دہشت گردوں کے لئے ایک ٹرانزٹ حب بن سکتا ہے جو پورے خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈال دے گا۔

تاریخی طور پر واخان کوریڈور کا پاکستان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ برطانوی دور کی سرحدی نامزدگی سے قبل یہ علاقہ موجودہ پاکستان کے خطوں کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور ثقافتی روابط رکھتا تھا۔ یہ نوآبادیاتی ورثہ آج بھی خطے کے باہمی روابط میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور وسائل سے مالامال وسطی ایشیائی ریاستیں اپنی مکمل اقتصادی صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھا پارہیں۔ طالبان بھارت کو افغان ہوائی اڈوں اور تجارتی راستوں تک کھلی رسائی دیتے ہیں لیکن پاکستان کی جائز علاقائی رابطہ کاری کی کوششوں کی مزاحمت کرتے ہیں جو کہ افغانستان کے اپنے اقتصادی مفادات کیخلاف واضح جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کو قانونی راستے تلاش کرنے چاہئیں تاکہ وہ واخان کوریڈور کو خریدنے یا لیز پر لینے کا آپشن اختیار کرے جس سے وسطی ایشیا کے ساتھ براہ راست تجارتی راستہ حاصل ہوسکے۔ یہ اقدام علاقائی روابط میں انقلاب لاسکتا ہے اور غیرمستحکم افغان تجارتی راستوں پر انحصار کم کرسکتا ہے۔ اگر افغانستان معاندانہ رویہ برقرار رہتا ہے اور پاکستان کی علاقائی تجارتی کوششوں کو جان بوجھ کر روکا جاتا ہے تو پاکستان کو حکمت عملی کے تحت واخان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا آپشن کھلا رکھنا چاہئے۔ چونکہ واخان راہداری کی چوڑائی 16 سے 60کلو میٹر کے درمیان ہے اس لئے وسطی ایشیا تک ایک براہ راست سرنگ (ٹنل) بنانا ایک قابل عمل آپشن ہوسکتا ہے۔ اگر افغانستان تعاون کا مظاہرہ نہیں کرتا تو پاکستان کو اپنے تجارتی راستے خود محفوظ بنانے ہونگے۔ اگر کابل کو یہ معاملہ سمجھ آگیا کہ اس میں پاکستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ افغانستان کا بھی فائدہ ہے تو یہ بہت بہتر بات ہوگی۔ افغان عبوری حکومت کو بھارت کی وقتی محبت اور اسی وجہ سے پاکستان کے ساتھ بلاوجہ دشمنی کے بجائے اپنے ملک کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کو اہمیت دینی چاہئے جس کے لئے افغان سرزمین کو فتنہ الخوارج سے پاک اور بھارتی مداخلت کو رد کرنا ہوگا پاکستان اور افغانستان دو برادر ملک اور قریب ترین پڑوسی ہیں اس لئے پاکستان کے ساتھ بہتر، برادرانہ اور پرخلوص دوستی خود افغانستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ موجودہ دور میں امریکی نئی پالیسیاں پوری دنیا میں تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومتیں اپنے ملک اور قوم کے مفادات کو مقدم رکھتی ہیں نہ کہ خود اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں اور عوام دربدر رہیں۔ افغان عوام تو گزشتہ 40سال سے یہی کچھ بھگت رہے ہیں اس لئے طالبان حکومت باہمی تعاون اور پائیدار دوستی کو ترجیح دے تاکہ افغان عوام کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو۔

تازہ ترین