عالمی سطح پر خواتین کا دن منانے کا سبب یہ ہے کہ ابھی تک امریکہ جیسے ملک میں ،جو آدھی دنیا کو فنا کرنے والے ہتھیار اور فوجی فراہم کرتا ہے، بھی عورتوں اور مردوں کی تنخواہیں مساوی نہیں ۔ اپنے وطن میں ہی خواتین کے محکمے میں کوئی وزیر نہیں تھا۔ اب خیرات کےطور پر شزا فاطمہ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے۔ ابھی یہ وضاحت باقی ہے کہ اس وزارت نےکیا کیا کام کرنے ہیں، خاص طور پر لوکل گورنمنٹ کے سارے ملک میں انتخابات اور اس میں پرویز مشرف کی طرح 33فی صد عورتوں کی نشستیں اور ذمہ داریاں بھی ہوتیں تو تعریف اس لیے کی جا سکتی ہے کہ اس زمانے میں جو مقامی خواتین سامنے آئیں اور ذمہ داریاں ادا کیں وہ قابل ستائش تھیں۔ مگر پھر شائد سارے مرد ڈر گئے۔ مقامی کونسلروں کے الیکشن کے وعدے تو ہیں مگر ابھی تک عملدر آمد نہیں ہے۔ ویمن کمیشن کی سربراہ بھی نہیں ہے۔
اس خوف کا اظہار اس لیے کہ وزیر اعظم نے 30لاکھ نوجوانوں کو آئی۔ ٹی کی تربیت دینے کا اعلان کیا ہے چونکہ پورے ملک سے نوجوان لیے جائینگے۔ مجھے خوف یہ بھی ہے کہ بہت سے ایم۔ اے اور بی اے پاس جو بیکاری بھگت رہے ہیںوہ سامنے نہ آجائیں کہ ہمارے سارے صوبوں میں میٹرک پاس کو تو باقاعدہ اردو بولنی اور لکھنی نہیں آتی انگریزی کے تو سول سرونٹس میں بھی باقاعدہ پڑھے لکھے کم ہی ملیں گے۔ اس لیے ہر صوبے اور ہر ضلع سے انتخاب کیا جائےاور بعد ازاں تربیت مکمل کرنے کے بعد، جس شعبے میں ان کی ذہنی پرداخت ہو، وہاں باقاعدہ کورس کروا کر، اس گریڈ کی آدھی تنخواہ تربیت کے دوران اور کورس ختم کرنے پہ پوری تنخواہ دی جائے۔ یہ میں اس لیےکہہ رہی ہوں کہ گزشتہ حکومتوں میں تعلیم بالغاں کیلئے بے روزگار نوجوان منتخب کیے جاتے تھے اور توقع کی جاتی تھی کہ یوں بنیادی جہالت ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر ہر دفعہ انجام یہ ہوتا تھا کہ وزیر اور محکمہ ہی ختم کر دیا جاتا تھا۔ گلیوں میں گھومتے نوجوانوں نے تو باقاعدہ پروفیشن کے طور پر چوری، ڈاکے اور اغوا کرنے میں مہارت حاصل کر لی ہے یا پھر منشیات کی اسمگلنگ کہ ان کو سعودی عرب تک منشیات لے جانے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ اب تو انسانی اسمگلنگ میں نوجوان بچیوں کو چین لے جانے کے بہانے غریب ماں باپ کو کچھ رقم دےکر چین لے جا کر، انہیں سیکس ورکر بنانے اور مارکیٹ میں خود کچھ کمانے کیلئے آزاد چھوڑ دینے کے منصوبے تھے۔ شکر ہے کہ ایک گروہ تو پکڑا گیا۔ مگر کیا کیا پکڑیں گے۔
ونی کرنے کی رسم ابھی تک جاری ہے۔ ڈیرے میں ایک باپ نے اپنی کمسن بچی کے ونی کئے جانے پر خود کشی کی اور لوگوں کے نام اپنی بے بسی کا خط لکھا۔ ایسے نابکار لوگوں سے معاشرے کو پاک کرنے کیلئے مقامی انتظامیہ اور نوجوان توجہ نہیں دینگے تو یہ برائیاں ختم نہیں ہونگی۔ ابھی طورخم کے علاقے کی استادوں نے ملالہ کے نام خط میں سارے صحافیوں کو شکایت کی ہے کہ بچیاں گھروں اور محلوں سے اس باہمی عداوت کے باعث نکل نہیں سکتیں اور ان کے سال ضائع ہو رہے ہیں۔ کتنی ہی بچیاں فون پر شکایتیں بتلاتی ہیں کہ اسکول کی عمارت نہیں، کہیں کتابیں نہیں، کہیں استاد نہیں البتہ تنخواہیں فائلوں میں کھائی جاتی ہیں۔ اس لیے امریکہ نے ایسے تمام فنڈنگ کے ادارے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم ہر دور میں بچوں کو کھانا دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کی نگرانی کیلئے، الگ اسٹاف رکھا جاتا ہے۔ انجام صفر۔ اب تو مالاکنڈ یونیورسٹی میں خود استاد بچیوں کو بلیک میل کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ابھی ان حرکتوں کے باعث 146 ملکوں میں پاکستان کا 145 واں نمبر ہے۔
کچھ سال پہلے حکومت امریکہ نے اسامہ کو فوج کے ذریعہ اغوا کرنے کے منصوبے پر، حکومت پاکستان سے بات کرنے کا سوچا اور کچھ عرصے بعد، اس خیال کو ختم کر دیا کہ پاکستان میں تو کچھ چھپا نہیں رہتا۔ اس لیے ہماری حکومت کو بتائے بغیر رات گیارہ بجے شہر کی لائٹ بند کر دی گئی۔ صبح ہوئی تو رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوا۔ ہماری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک شریف اللہ کو پکڑ کر امریکہ کے حوالےکرنے کا کریڈٹ ہی نہیں۔ ضیا کا زمانہ لیں یا کوئی زمانہ، خود لوگوں کو گرفتار کروا کے اکثر جگہ تاوان بھی لیا جاتا ہے۔ کئی سال سے یہ ترکیب جاری ہے کہ جو صحافی یا کوئی اور شخص حکومت کو خبردار کرتا ہو۔ اس کو کبھی اینکر شپ سے ہٹا دیتے ہیں یا مزید اور اذیت دینی ہو تو جہاز پہ بٹھا کر دوسرے ملک بھیج دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی دور میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے اور اب ایک اور فتنے نے سر اٹھایا ہے کہ پورے سندھ میں مظاہرے اور جلوس نکالے جا رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے دریائے سندھ سے چار نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ہر چند پنجاب گورنمنٹ اور ارسا والوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نہیں، یہ تو ہم لوگ دریائے ستلج سے گرین چولستان کے انتظامات کر رہے ہیں۔ اب تو بلاول بھی خلاف بول اٹھے ہیں۔ پانی ڈیموں اور دریاؤں میں پہلے ہی نہیں ہے۔ اوپر سے اس منصوبے کو کون آگے بڑھا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کی وضاخت ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسٹیل مل کی لمبی چوڑی زمین کسی زمانے میں پارک بنانے کے نام پہ ہتھیا لی گئی۔ اب شور اس لیےکہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
ہم سب نے دیکھا کہ آموں کے باغات ختم کر کےوہاں رہائشی کالونیاں بنائی گئیں۔ اور اب صحرائی زمین کو گرین بنانے کیلئےیہ نیا شوشہ۔ خدا کرے کہ یہ تنازع جلد ختم ہو اور غلط فہمیاں دور ہوں۔ پہلے ہی حیدرآباد جا کر میں نے پلا مچھلی مانگی تو سب نے افسوس کرتےہوئے کہا ’’دریائے سندھ میں پانی نہیں اور پلا مچھلی تو تازہ پانی میں سانس لیتی ہے۔ سندھ میں ہر گاؤں اور ہر گاؤں میں مچھلی پکتی اور کھائی جاتی۔ ہم لوگ سیزن کے لحاظ سے مچھلی کھاتے ہیں۔ وہاں روز مرہ کی خوراک ہے۔ مچھلی کی فروخت اور پروڈکشن بڑھائی جائے تو عام لوگ گوشت کی مہنگائی سے ڈر کر مچھلی ہی پروٹین کیلئےکھایا کریں ۔ چکوال کے لوگوں نے آملہ اگانا اور فروخت کرنا شروع کیا ہے۔ اسی طرح زیتون کی بھی اچھی پیداوار ہے۔ ہماری میڈیا والی خواتین مرغی چھوڑ کر زیتون کو کھانے اورا سنیکس کی شکل بنانے کو فروغ دیں۔ اسی طرح ملتان میں سہانجنا ہوتا ہے۔ سندھ میں مشروم کےعلاوہ علاقائی سبزیاں بھی ہوتی ہیں جن کا ذائقہ میں نے تھرپارکر میں چکھا۔ ضروری اس لیے ہے کہ اس وقت بہت سے چینی پاکستان میں ہیں اور کلو کے حساب سے چھوٹی مچھلیاں خریدتے ہیں۔ اسی طرح بازار میں اٹالین پیزا بہت فروخت ہوتا ہے۔ ہم کبھی پنیر سستا بنا کر گھروں میں ڈشز بنانے لگے تو انڈیا کی طرح ہر غریب کوبھی پنیر، دہی آملےکا اچار اور زیتون کھانے کو ملے۔