• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظام ہائے ریاست بنانے اور چلانے والے حلف برداروں پر ملکی ابتری میں واضح ہو:کامران و کامیاب ممالک و اقوام کااستحکام و خوشحالی اور ان میں امن و امان اور سب سے بڑھ کر سماجی انصاف کا حصول علم و عمل اور اسکے نتیجے میں ترقی جاریہ (Sustainable Development) کا مرہون منت ہے۔ حصول پاکستان کے تو عمل کا آغاز ہی برصغیر میں پہلی مسلم یونیورسٹی کے قیام سے ہوا۔ اگر آج یہ اپنی طویل اور مسلسل بحران در بحران کی کیفیت کے باوجود دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میںشامل اور اپنی جملہ سرحدات کے تحفظ کی فکر سے آزاد ہے تو یہ ملک کے شہرۂ آفاق سائنس دان کی علمیت و تفکر وطن کا اعجاز ہے۔سرسید احمد خان کا علمی مشن ارتقائی شکل میں علمی سیاسی بن گیا تو دو قومی نظریے کی بنیادتحریک پاکستان کیلئے رکھی گئی۔ ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام (دسمبر1906) میں ہوا تو متحدہ ہندوستان میں فرنگی کے متعارف کرائے جدید نظام سیاست و حکومت کو مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے حکیمانہ مطالبے’ جداگانہ انتخاب‘ کا سیدصاحب کے سینے میں بسا ایجنڈا مسلمانان ہند کا پہلا سیاسی مطالبہ بننے کیلئے باہر نکل آیا تھا۔ اس بنتے سیاسی افق پر آشکار ہوتے ہی نئے پولیٹکل آرڈر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اگلی سیاسی و آئینی جدو جہد کا روڈمیپ بھی ہوتا جا رہا تھا۔ اب جدید سیاست کے پیچ و خم کے فہم اور آئینی و قانونی کے وسیع فریم میں خصوصاً کانگریس کی چالباز عملی سیاست کے مقابل مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی حقیقی نمائندہ جماعت بنانے کا چیلنج بہت کٹھن تھا۔ لیکن یہ علی گڑھ مسلم لیگ کی عظیم نظریاتی درس گاہ میں تیار ہوئے علمی و سیاسی کارواں، واضح دو قومی نظریے اور قائد اعظم و اقبال جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی قائد و رہنما کی سرگرمی سے آسان ہوتا گیا۔ مشکلے نیست کہ آساں نہ شد (وہ مشکل ہی نہیں جو آسان نہ ہو جائے)قارئین کرام! قیام پاکستان کی اس مختصر ترین کہانی پر غور فرمائیں تو آپ پر کانگریس جیسی چالاک و چالباز جماعت کے مقابل اور فرنگی کے مسلمانان ہند بارے مسلسل الرٹ رہنے کے باوجود، مسلم لیگ کے دو ہی جواہر مکمل علمی سوچ و اہتمام اور عمل سے اسے تحریک کی شکل میں ڈھال دینا آشکار ہوں گے۔

وائے بدنصیبی، قیام پاکستان کی ابتدا میں ہی قیادت و مطلوب رہبری سے محروم اور نومولود پاکستان کے نظام حکومت و سیاست پر جاگیر داروں اور افسر شاہی جیسے ریاستی انٹرسٹ گروپس اور سیاسی ذہن کی فوجی قیادت تیزی سے علمی سیاسی قافلے کا متبادل بنتی گئی۔ اس کے باوجود تحریک پاکستان کے اعلیٰ پوٹینشل علم و عمل کی متذکرہ داستان کے بعد تشکیل حکومت کے مقابل اور مطلوب سیاسی و جمہوری کلچر سے متضاد ریاستی ڈھانچے میں پیدا ہوئے سازشی اور گٹھ جوڑ کلچر نے آغاز پاکستان کی گورننس میں مطلوب کا ایک بڑا خلا پیدا کیا۔ تاہم شہدائے پاکستان کی عظیم جانی و مالی قربانیوں اور نئی مملکت میں انصار و مہاجرین کے سچےسیاسی عزم و عمل نے ترقیاتی عمل کو رکنے نہ دیا۔ سب سے بڑ ا ستم آئین سازی میں تاخیر اور متفقہ کی تشکیل کے باوجود انتخاب کے برعکس مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ یہ سب کچھ نئی ریاست کی تعمیر کی قومی علمی ضرورتوں سے دوری و محرومی سے ہوا اور ہوتا ہی گیا۔ آنے والے عشروں میں بیمار سیاسی عمل اور اس کے ساتھ اطرافی امتیازات سے ناپائیدار ترقی کا عمل جاری ہوا، لیکن متفقہ آئین سے گریزاں حکومتیں مملکت کو موجود اور ظہورپذیر علم کے اطلاق اور عوامی شرکت کے بغیر ملٹری، سیاسی عمل سے ہی ملک چلتا رہا۔ بھٹو دور میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہوا تو متفقہ آئین بن کر بھی عملاً نافذ نہ ہوا، یہ بدستور مطلوب علمی و سیاسی عمل سے متصادم ریاستی رویہ تھا۔ نتیجتاً آج کا ابتر پاکستان دائروں کے بے ثمر سفر در سفر کا شاخسانہ ہے لیکن عظیم علمی سیاسی ریاستی و عوامی اثاثے کے پائیدار حاصل ’’ایٹمی مملکت‘‘ کے امتیاز کے ساتھ جو آنجہانی سوویت یونین کی روسی کشور کشائی بھی تھی۔ خدا را آج کی جدید ریاست کے استحکام کی حتمی ضمانت ہیومین سیکورٹی اور تعمیر وطن کے علم میں ناگزیر جدید علمی معاونت کی حقیقت کو سمجھا جائے۔ یاد رہے اس کو ترک کرنے سے پاکستان میں داخلی تنازعات (Intrastate Conflict) آغاز سے ہی پیدا ہو کر مہلک حد تک طاقت پکڑتے رہے، ایک مشرقی پاکستان کی اور دوسرے بلوچستان کے سنجیدہ سیاسی تحفظات جنہوں نے آنے والے عشروں میں تشویشناک صورت اختیار کی۔ قارئین کرام! نئی نسل کے ذہن نشین رہے کہ بلوچستان اتحاد و اتفاق و الحاق کے تاریخی حوالوں کے ساتھ پہلے عشرے میں قیام پاکستان پر ہی وطن سے اپنی وفا و یکجہتی کا بھرپور اور منظم و مقبول مظاہرہ کر چکا تھا کہ دوسرے ہی عشرے سے وفاق کے ساتھ کچھ سنجیدہ مسائل پیدا ہونے لگے۔ ایوبی دور سے تادم ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ملٹری اور سول اور سول ملٹری ادوار میں بھی۔ اس تاریخ میں یہ بھی عجب ہوا کہ ملک میں بھٹو صاحب کی پہلی آئینی حکومت میں ہی بلوچستان میں گورنر راج لگا کر منتخب حکومت ختم کردی گئی اور پھر صوبہ بھر ملٹری آپریشن جبکہ بلوچستان کی بحرانی تاریخ میں عجب ہے کہ ضیاء الحق کا ملٹری رجیم پرُ آشوب صوبے کے لئے وفاق کی سب سے زیادہ قبولیت اور امن وسکون کا عشرہ تھا۔

بلوچستان کی موجودہ انتہائی ابتر صورتحال میں حل کی نوعیت کے حوالے سے واضح ہوگئی حتمی حقیقت یہ ہے کہ اس کا ملٹری سولیوشن تو بالکل نہیں، سیاسی بھی موجودہ ملکی حالت میں تو نہیں۔ ملکی سیاسی عمل بیمار اور پیچیدہ وفاق اور صوبائی سب حکومتیں پری اور پوسٹ پول الیکشن کمیشن کے نہ جانے کس مشن کیلئےکئے گئے ’’کارناموں‘‘ نے صورتحال بے حد بگاڑ دی ہے۔ جگاڑ کی کوئی گنجائش نہیں۔ رجیم چینج ( اپریل 2022) کے بعد نظام عدل میں پیدا ہوئے بگاڑ اوراور پھر جگاڑ پر جگاڑ کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس میں قابل قبول سیاست ہی نہیں رہی تو ایٹ لارج عدم قبولیت کی ابتر ملکی صورتحال میں سیاسی حل کیسے نکالا جائے؟ سیاسی بیان بازی اور اِتمام حجت کیلئے کچھ بھی کہہ لیں کوئی بھی بیانیہ بنا لیں، اسے عام بھی کردیں لیکن ریت سے مچھلی کی تلاش سعی لاحاصل ہوگی۔ ملٹری آپریشنز کی پیچیدگیاں اور بڑے چیلنجز بہت واضح ہیں، سیکورٹی کی ضرورتیں بھی، اسے کوئی بڑے امتحان سے نہ گزارا جائے۔ نئی اپروچ تو اختیار کرنی ہی پڑے گی۔ محدود علم اور طویل صحافتی تجربے کے حوالے سے ناچیز کی تجویز ہے ممکنہ حل کیلئے فوری ’’اکیڈمک پولیٹکل پوزیشن‘‘لی جائے۔ یعنی بلوچستان کا مسئلہ زیادہ سے زیادہ قبول (اہل بلوچستان کیلئے) زیادہ سے زیادہ قبولیت کے حامل ملکی و صوبائی سیاست دانوں اور متعلقہ علمی معاونت کے ماہرین کے اشتراک سے علمی سیاسی حل کی طرف آیا جائے۔ اپنے تئیں حلفیہ و قسمیہ تک مخلصانہ ملین ڈالر ٹپ ہے کہ ملک پر سوچ اختیار کرکے قومی رہنماؤں کی معاونت و تائید سے بڑے دل اور ٹھنڈے دماغ سے خان کو رہا کر دیا جائے۔ یہ ہرگز ہرگز سیاسی نہیں علمی مشورہ ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین