اِس بنچ پر وہ دونوں اکثر آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جھیل کے کنارے ایسے بنچ کئی تھے، چھٹی والے دن یہاں کافی رش ہوتا تھا، مگر باقی دنوں میں یہاں لوگوں کی آمدورفت کم ہوتی تھی، لیکن اُن دونوں نے کسی رومانوی وجہ سے اِس بنچ کا انتخاب نہیں کیا تھا، انہیں یہاں سے جھیل کا نظارہ بہت دلکش لگتا تھا، اُن کے ہاتھ میں ایک آدھ کتاب ہوتی جس پر وہ بحث کرتے کرتے یہاں آن بیٹھتے۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا تھا، لڑکے کے ہاتھ میں The Wretched of the Earth تھی جس پر گفتگو کرتے کرتے انہیں وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ کافی دیر ہو گئی تو لڑکے نے کہا شام ڈھلنے والی ہے اب چلنا چاہیے، لڑکی بے ساختہ ہنس پڑی، اُس کی یہی باتیں تو لڑکی کو پسند تھیں۔
جھیل سے سڑک تک کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا، بمشکل چند منٹ کی واک تھی، لیکن اُس دن سڑک پر کچھ رَش تھا، ذرا آگے گئے تو پتا چلا کہ پولیس نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ انہیں بھی ایک پولیس والے نے روک لیا۔ ’’شناختی کارڈ دکھاؤ‘‘ ایک اہلکار نے درشت لہجے میں لڑکے سے کہا۔ لڑکے نے چُپ چاپ اپنا شناختی کارڈ اُس کے حوالے کر دیا۔ اہلکار نے اُلٹ پلٹ کر اُس کا کارڈ دیکھا اور ساتھ کھڑے تھانیدار کے حوالے کر دیا۔ تھانیدار نے کارڈ پر نظر ڈالی اور پھر غور سے اُس لڑکے کو دیکھا۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ تھانیدار نے پوچھا۔ ’’جی کارڈ پر لکھا ہے۔‘‘ نہ جانے کیسے اُس نے یہ جواب دے دیا، لڑکی نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا۔ اِس سے پہلے کہ تھانیدار اسے ایک موٹی سے گالی دیتا، لڑکی بولی ’’مارکوس...مارکوس نام ہے اِس کا۔‘‘ تھانیدار کی گالی منہ میں ہی رہ گئی۔ اُس نے ایک مرتبہ پھر لڑکے کو غور سے دیکھا اور دوبارہ کارڈ پر نظر ڈالی، اِس مرتبہ اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے اور پھر اچانک اُس نے حکم دیا ’’گاڑی میں ڈالو اِسے۔‘‘ ایک بھگدڑ سی مچ گئی، ارد گرد کھڑے پولیس والوں نے کالر سے پکڑ کر لڑکے کو دبوچا، کسی نے اُس کی ٹانگیں پکڑیں اور کسی نے بغل میں ہاتھ ڈالے اور اُسے اٹھا کر گاڑی میںیوں پھینک دیا جیسے مال بردار گاڑیوں میں سامان سے لدی بوریوں کو پھینکتے ہیں۔ نہ جانے انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، وہ لڑکے کو کہتے تو وہ یونہی اُن کے ساتھ چلا آتا۔ اِس دوران لڑکی خوفزدہ ہو گئی اور اُس نے چلانا شروع کر دیا، وہاں بہت سے لوگ موجود تھے مگر کسی نے اِس پر احتجاج نہیں کیا۔ وہ پوچھتی رہ گئی کہ لڑکے کو کہاں لے جا رہے ہو مگر اُسے جواب نہیں دیا گیا۔ پولیس کی وین آناً فاناً لڑکے کو اٹھا کر لے گئی۔
لڑکے کو جس کمرے میں رکھا گیا وہ کسی بھی طرح پولیس اسٹیشن کا حصہ نہیں لگتا تھا، اُس کے دونوں ہاتھ پیچھے کرسی کے ساتھ بندھے تھے، گو کہ ڈوری کو مضبوطی سے باندھا گیا تھا مگر یہ گرہ کوئی ایسی نہیں تھی جسے کوئی پروفیشنل آدمی کھول نہ سکتا ہو، مگر لڑکے نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی، بظاہر وہ اب تک پُر سکون تھا۔ پولیس وین میں کسی نے اُس سے کوئی بات نہیں کی تھی، وہ لوگ اُسے وین میں ڈال کر یوں لا تعلق ہو گئے تھے جیسے جانتے ہی نہ ہوں کہ وہ کون ہے اور کیوں اُن کے ساتھ بیٹھا ہے۔ البتہ اِس عمارت میں داخل ہونے سے پہلے کسی نے اُس کے منہ پر سیاہ کپڑا چڑھا دیا تھا جس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ وہ یہ نہ جان سکے کہ کہاں ہے۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور چار آدمی اندر داخل ہوئے، اُن میں سے ایک افسر نما لگ رہا تھا جبکہ دوسرا وہی تھانیدار تھا جس نے لڑکے سے ناکے پر پوچھ گچھ کی تھی، باقی دو آدمیوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں جنہیں انہوں نے یوں تھام رکھا تھا جیسے حکم ملتے ہی وہ لڑکے پر فائر کھول دیں گے۔ تھانیدار کے ہاتھ میں فائل تھی اور وہ مسلسل لڑکے کو گھور رہا تھا۔ کمرے پر سکوت طاری تھا۔
’’تم کب سے ماریو کو جانتے ہو؟‘‘ افسر نما شخص نے خاموشی توڑی۔
’’کون ماریو؟‘‘ لڑکے نے حیرت سے پوچھا۔ جواب میں ایک مسلح شخص نے بندوق کا بَٹ اُس کے منہ پر اِس زور سے مارا کہ وہ کرسی سمیت گر پڑا۔ دوسرے شخص نے لڑکے کو اٹھا کر بٹھایا مگر ساتھ ہی دوبارہ لڑکے کے منہ پر بَٹ مارا۔ وہ پھر گر پڑا۔ انہوں نے مسلسل پانچ مرتبہ یہی کیا۔ اِس دوران افسر نما شخص اطمینان سے یہ سارا کھیل یوں دیکھتا رہا جیسے یہ کوئی فلم کا منظر ہو۔ لڑکے کا چہرہ جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اور اُس کے منہ سے خون رِس رہا تھا۔
’’ماریو کہاں ہے؟‘‘ افسر نما شخص نے دوبارہ پُرسکون انداز میں سوال کیا۔ لڑکے نے جواب دینا چاہا مگر اُس سے بولا نہیں گیا۔
’’تمہارا نام مارکو ہے؟‘‘ افسر نما شخص نے پھر پوچھا۔ لڑکے نے بدقت تمام ناں میں سر ہلایا۔ ’’ما..مارکوس...‘‘ اُس کے منہ سے بمشکل اتنا ہی نکل پایا۔ افسر نما شخص کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے، اُس نے تھانیدار کے ہاتھ سے فائل لی اور جلدی جلدی اُس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ تھانیدار کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔
’’پہلے تو تم نے اپنا نام مارکو بتایا تھا۔‘‘ تھانیدار جلدی سے بولا۔
’’نن...نہیں جناب...میں نے تو عرض کیا تھا کہ شناختی کارڈ دیکھ لیں۔‘‘ لڑکے کو بولنے میں بہت مشکل پیش آرہی تھی۔
افسر نما شخص کا چہرہ غصے سے سُرخ ہو گیا۔ ’’تم غلط بندے کو اٹھا کر لے آئے ہو۔‘‘ اُس نے تھانیدار کو کہا اور فائل میز پر پٹخ دی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھانیدار بھی ’’سر سر‘‘ کہتا ہوا تیزی سے اُس کے پیچھے ہو لیا۔ دونوں مسلح آدمیوں نے پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ اب کیا کریں اور پھر وہ بھی کمرے سے نکل گئے۔ لڑکے نے انہیں آواز دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
تین دن بعد وہ دونوں پھر اُسی جھیل کے کنارے بنچ پر بیٹھے تھے۔ اِس مرتبہ لڑکی نے لڑکے کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ دونوں خاموش تھے۔ جھیل بھی پُرسکون تھی۔ تھوڑی دیر بعد لڑکے نے اپنی پتلون کی جیب سے ایک کاغذ نکال کر لڑکی کو دیا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے حیرت سے پوچھا اور پھر خود ہی پڑھنے لگی۔ یہ ایک سَمن تھا جس میں الزام لگایا تھا کہ آپ یونیورسٹی میں ریاست مخالف بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہیں اور آپ کے قبضے سے ایسی کُتب برآمد ہوئی ہیں جن کا مواد ریاست کے خلاف مسلح بغاوت پر اکسانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ دو روز بعد متعلقہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے رُوبرُو پیش ہو کر وضاحت کریں ورنہ یکطرفہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
سَمن مارکو کے نام تھا۔