وزیر اعظم شہباز شریف کا ترقی میں بھارت کو پیچھے چھوڑنے کا بیان تو اچھا ہے مگر حالات بظاہر ایسے نظر نہیں آ رہے۔ وزیر اعظم کو خالی خولی بیانات نہیں دینے چاہئیں بلکہ عملاً کچھ کر کے بھی دکھانا ہو گا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے عوام مایوس ہو چکے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت خطے میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی اس وقت پاکستان میں ہے۔ شہباز حکومت نے پوری قوم کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں اور بجلی کے بلوں پر لگنے والے ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم کرے گی اور عوام کو ریلیف فراہم کرے گی،مگر حکومت کے اب تک کے اقدامات غیر تسلی بخش ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاست دانوں، سرمایہ داروں، ججز، جرنیلوں جنھوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ان کواحتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ظلم کے اس نظام نے ملک کو مسائلستان بنا کر رکھ دیاہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو اپنے قیام سے ہی جن لا متناہی مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں سب سے کلیدی مسئلہ محب وطن قیادت کا فقدان ہے۔ اگر ملک و قوم کو حقیقی قیادت میسر ہوتی تو آج پاکستان ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا۔ ملک سیاسی انتشار اور بے یقینی کا شکار ہے اس سے ہر شعبے کی طرح ملک کی معیشت بھی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ عوام نے جب تک بے داغ قیادت کو موقع فراہم نہ کیا اس وقت تک حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب کا اے آئی کی مدد سے ٹیکس بڑھانے کا بھی اعلان تشویشناک امر ہے۔ عوام پہلے ہی بے تحاشا ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت اپنی مراعات اور اربوں روپے اشتہارات پر لگانے کی پالیسی کو ترک کرنے کی بجائے غریب عوام پر مسلسل ٹیکس لگا کر انکا خون تک نچوڑ لینا چاہتی ہے۔ حکومت ملکی مفاد کیلئے تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ جو پہلے سے تنخواہ دار طبقہ 300ارب روپے کا ٹیکس ادا کر رہا ہے اسی پر بوجھ بڑھایا جارہا ہے۔ 25کروڑ کی آباد ی میں مٹھی بھر لوگ ٹیکس دیتے ہیں، اشرافیہ، بڑے سرمایہ دار اور جاگیردار ٹیکس سسٹم میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔ نجکاری کے نام پر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتی ہے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے۔ اس اقدام سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔ ملک کے اندر پہلے ہی33 فیصد صنعتیں بند ہونے سے دو کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ پالیسی ریٹ 23فیصد سے 11فیصد پر آ گیا مگر عوام کو ریلیف میسر نہ ہو سکا۔ رہی سہی کسر رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے پوری کر دی ہے۔ حکومت گراں فروشوں کو قابو کرنے اور مہنگائی کم کرنے میں ناکام ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اندرونی استحکام بنیادی شرط ہے، جمہوری معاشرے میں اندرونی استحکام، سیاسی استحکام سے منسلک اور مشروط ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں موجودہ صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر توجہ دیں کیونکہ مل کر آگے بڑھنے میں ہی سب کی بقا اور ملک کی بہتری ہے۔ قرضوں کا بھاری بوجھ، دہشت گردی، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری اور بدعنوانی، جیسے مسائل نے ملک کیلئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ملک و قوم کو ترقی کے راستہ پر گامزن کرنا ہے تو انتقامی سیاست کو ختم اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہو گا۔ حکومت کی معاشی پالیسی کشکول کے اردگرد گھومتی ہے، عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہئے، مگر بد قسمتی سے حکمرانوں کے شاہانہ پروٹوکول اور مراعات پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ رواں ہفتے مہنگائی میں اضافہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ نجکاری کے نام پر جو کھلواڑ اداروں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس نے ہمارے حکمرانوں کی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارباب اقتدارنے ملک و قوم کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جبکہ ملک کے اندر سازشی ٹولہ انتشار اور افراتفری کو پروان چڑھا رہا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے اندر سیاسی و معاشی استحکام لائے۔ حالات ہماری سوچ سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں۔ سنگین بحرانوں نے ملک و قوم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ادارے کرپشن کا شکار اور معیشت جمود کی نذر ہو چکی ہے۔ پائیدار ترقی و خوشحالی کیلئے جمہوری اقدار، روایات کی مضبوطی لازم و ملزوم ہے۔ جب تک معیشت میں استحکام اور مضبوطی کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات، ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کا قلع قمع، سیاسی صورتحال میں بہتری، کرپشن کا خاتمہ اور محب وطن قیادت میسر نہیں آ جاتی اس وقت تک پاکستان کا عالمی برادری میں امیج بہتر نہیں ہو سکتا۔ ملکی حالات حکمرانوں کے عاقبت نا اندیش فیصلو ں کی بدولت خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ذاتی تشہیر پر مبنی روزانہ اربوں روپے کے اشتہارات پر پیسہ کہاں سے خرچ ہو رہا ہے۔؟ لگتا ہے کہ حکومتی کارکردگی صرف اشتہارات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ عوام کوتو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، مہنگی بجلی اور ظالمانہ ٹیکسوں کے خاتمے تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے سیاسی نمائندے اپنے اللوں تللوں میں مصروف ہیں مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کیلئے سب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں لیکن عوامی مسائل پرکوئی بھی بات نہیں کرتا۔