قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے منگل کو منعقدہ اجلاس میں جہاں متفقہ اعلامیہ کی صورت میں دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لئے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا گیا وہاں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے اظہار خیال کی صورت میں پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت بھی اجاگر ہوئی۔واضح رہے کہ سافٹ اور ہارڈ اسٹیٹ کی اصطلاحات مملکتوں میں ریاستی عملداری کے نفاذ ،امن و امان کی صورتحال اور قوانین پر عملدرآمد کی کیفیت کے اظہار کے لئے کی جاتی ہیں۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، ہم گورننس کے خلاکو کب تک فوج پاکستان اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے، بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ’’ہارڈ ریاست‘‘ بنانے کی ضرورت ہے، کب تک ’’نرم ریاست‘‘ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں، جو کچھ بھی ہو جائے انشاء اللہ ہم کامیاب ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی نے متفقہ اعلامیہ میں دہشت گردی و جرائم کا گٹھ جوڑ ختم کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عملدرآمد پر زور دیا اور قرار دیا کہ کوئی ادارہ، فرد یا گردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزوری نہ دکھائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت منعقدہ اِن کیمرہ اجلاس میں اگرچہ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے شرکت نہیں کی تاہم علی امین گنڈا پور بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اجلاس میں موجود تھے اور انہوں نے باہمی بداعتمادی ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر، اہم وفاقی وزراء ، فوج اور انٹلیجنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام شریک تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کی پارلیمانی کمیٹی نے منظوری دی۔ اعلامیہ میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی واضح لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیاگیا۔ انسداد دہشت گردی آپریشنز میں سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری، شجاعت اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہاگیا۔ واضح کیا گیا کہ دشمن قوتوں کی ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ حزب اختلاف کے بعض افراد کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا گیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہیگا۔ دوران اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ناسور بن گئی، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ، 2018ء میں قائم نااہل حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے حاصل ثمرات ضائع کر دیئے، اہم اجلاس میں عدم شرکت اپوزیشن کا غیر جمہوری رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور عوام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی سازش نہ کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جو آگ پاکستان میں لگی، ہمسائے یہ نہ سمجھیں کہ ان تک نہیں پہنچے گی۔ انہوں نے افغانستان میں دہشت گردی کا معاملہ بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر اجاگر کرنے پر زور دیا۔ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہمیں ملک کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دینے والے ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے ان سے مشورہ کرتے تو اس اجلاس میں آنے کا ضرور کہتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت کا سب سے بڑا ایجنڈا ملک کی سلامتی ہے۔ ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقا کی جو جنگ درپیش ہے اس میں ہر قسم کے اختلافات پس پشت ڈال کر تمام سیاسی و غیرسیاسی قوتوں کو پیش پیش رہنا چاہئے۔