اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غزہ کے واحد خصوصی کینسر اسپتال اور اس کے ساتھ واقع میڈیکل اسکول کو تباہ کردیا۔
عرب میڈیا کے مطابق تل ابیب کو اس کارروائی پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انسانی حقوق کے قوانین کے تحت طبی مراکز کو نشانہ بنانا ممنوع ہے، لیکن اسرائیل نے ایک بار پھر اسپتال کو نشانہ بنایا۔
جمعہ کو کیے گئے حملے میں غزہ کے وسطی علاقے میں واقع ترک-فلسطینی فرینڈشپ اسپتال کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ یہ اسپتال پہلے ہی اکتوبر 2023 سے اسرائیلی حملوں میں شدید نقصان کا شکار تھا۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج کی بمباری کے بعد اسپتال کی جگہ سے آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔
یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ نیٹزارم کوریڈور میں اپنی فوجی مہم کو وسعت دے رہا ہے اور صلاح الدین اسٹریٹ پر تمام نقل و حرکت روک دی گئی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اس اسپتال کی تباہی کے بعد ہزاروں مریضوں کےلیے کینسر کے علاج کی کوئی جگہ نہیں بچی۔
یہ اسپتال 2017 میں ترکی کی 34 ملین ڈالر کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اب مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔
اسرائیل نے اسپتال کی تباہی کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حماس کے زیر استعمال تھا لیکن اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
ادھر ترک کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو "ریاستی دہشت گردی" قرار دیتے ہوئے کہا، "یہ حملہ اسرائیل کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد غزہ کو غیرآباد کرنا اور فلسطینی عوام کو زبردستی بے دخل کرنا ہے۔"
ترکیہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ "وہ اسرائیل کے غیر قانونی حملوں کے خلاف عملی اور سخت اقدامات کرے"۔
یہ اسپتال غزہ میں کینسر کے علاج کا سب سے بڑا مرکز تھا اور ہر سال 30 ہزار مریضوں کے علاج کےلیے مختص تھا۔