• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک پر بھاری قرضوں کے بوجھ میں ہر روز اضافہ ہوتے چلے جانے کی بنا پراگرچہ خود ذمے داران حکومت سرکاری اخراجات میں کمی کی ضرورت کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ اس حوالے سے متضاد مظاہر آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔وفاقی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھاری اضافے حال ہی کی بات ہیں ۔ دوسری جانب اخراجات میں کمی کی خاطر فروری کے تیسرے ہفتے میں کئی وفاقی وزارتوں کا انضمام عمل میں آیا تھا۔ہوابازی کی وزارت کو وزارت دفاع میں اورنارکوٹکس کی وزارت کو وزارت داخلہ میں ضم کرکے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو اضافی قلمدان دیے گئے تھے۔ اس اقدام کے پیش نظر وفاقی کابینہ میں فوری توسیع کا بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا ، لیکن اسی مہینے کے اواخر میں وفاقی کابینہ میں دو درجن نئے وزراء اور مشیروں کی شمولیت عمل میں آگئی جس کے نتیجے میں کابینہ کے ارکان کی تعداد پچاس سے اوپر جاپہنچی جبکہ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز ارکان کابینہ کی تنخواہوں اور الاؤنسوں میں پچیس پچاس نہیں 188 فی صد تک اضافہ کردیا گیا۔ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کے الاؤ نس اور تنخواہوں کے ایکٹ 1975 میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور مشیر کی تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار ہو جائے گی جبکہ اس سے پہلے وفاقی وزیر کی تنخواہ 2 لاکھ اور وزیر مملکت کی ایک لاکھ 80 ہزار تھی۔ وفاقی وزیر کی تنخواہ میں 159فیصد جبکہ وزیر مملکت اور مشیر برائے وزیراعظم کی تنخواہوں میں 188 فیصد تک اضافہ منظور کیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری دے دی ہے۔ قانون کے تحت کوئی بھی بل پارلیمنٹ میںپیش کرنے سے قبل اس کی کابینہ سے منظوری لینا لازمی ہے۔واضح رہے کہ کابینہ کے چار فروری کے اجلاس سے مذکورہ سمری کو آخری وقت میں ایجنڈے سے نکال دیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ اور کابینہ کے ارکان کی اپنی تنخواہیںاور مراعات بڑھانے میںیہ دلچسپی عوام کے حال زار سے لاتعلقی اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافے کے معاملے میں قطعی بے حسی کا واضح ثبوت ہے۔ ملک میں ہزاروں عوامی گھرانے یوٹیلٹی اسٹوروں کی بندش جیسے فیصلوں سے بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں جن کے لیے متبادل روزگار کا کوئی بندوبست نہیں کیا جارہا لیکن منتخب ایوانوں میں ان ہی عوام کے نمائندے قرضوں کی بیساکھی پر چلنے والی معیشت پر اپنی مراعات بڑھاکر مزید بوجھ ڈالنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ مستند اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے ابتدائی 9 ماہ مارچ تا نومبر 2024 کے دوران حکومتی قرضے مجموعی طور پر 5 ہزار 556 ارب روپے بڑھ گئے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق نومبر 2024 تک وفاقی حکومت کا قرضہ 70 ہزار 366ارب روپے رہا جو فروری 2024 میں 64 ہزار 810 ارب روپے تھا۔ نومبر 2024 تک وفاقی حکومت کا مقامی قرضہ 48 ہزار585 ارب اور غیر ملکی قرضہ 21 ہزار 780 ارب روپے تھا جبکہ فروری 2024 تک وفاقی حکومت کا مقامی قرضہ 42 ہزار 675 ارب روپے اور مرکزی حکومت کا غیرملکی کاقرضہ 22 ہزار 134 ارب روپے تھا۔ موجودہ حکومت میں نگراں دور کے مقابلے میں مجموعی طور پرقرضوں میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر قانون سازوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ معاشی اشاریوں میں بہتری کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے اور ملک کو قرضوں پر انحصار سے نجات دلانے کیلئے ابھی طویل مدت تک سرکاری اخراجات میں آخری حد تک کفایت شعاری ضروری ہے اور یہ ہدف اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب حکمراں اور عوام کے نمائندے قوم کے لیے قربانی دینے کی روش اپنائیں۔

تازہ ترین