آج سے چار سال قبل ماہ رمضان کے بائیسویں روزہ کو والد محترم ایم طفیل جنہیں سب پا جی کے نام سے پکارتے تھے چند روز کی علالت کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ۔ والد محترم ایم طفیل 1937 میں بھارت کے شہرامرتسر کے ایک علاقہ سہانسپورمیں پیدا ہوئے جہاں سے وہ قیام پاکستان سے قبل ہی سیالکوٹ کے ایک مشہورگائوں چٹی شیخاں منتقل ہوگئے یہیں سے اپنی عملی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے ایم طفیل ( پا جی ) رمضان المبارک کے مقدس مہینے 22 رمضان المبارک کو چار سال قبل 2021 میں جب رحلت فرما گئے تو ہم تمام اہلخانہ کو اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ والدین کی وفات اور بچھڑنے کا غم ، اب ہماری باقی ماندہ زندگی میں ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔زندگی کے ابتدائی ایام سے لے کر آخر تک کا سفر والد محترم نے انتہائی ایمانداری اور سادگی سے طے کیا ۔جہاں انہیں دنیاوی علوم پر دسترس حاصل رہی وہیں دینی علوم پر بھی انہیں کمال کاعبور تھا، ہمیشہ سنت رسول کے پابند رہے، محنت اور لگن ہی کو انہوں نے اولین ترجیح دی زمانہ طالب علمی کا دورچٹی شیخاں کے پرائمری اسکول اور بعد ازاں گود پور میں ہائی سکول سے ہوتے ہوئے مرے کالج تک پہنچے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھانے کا بھی شوق تھا جو انہیں ضلع خوشاب میں واقع جوہر آباد لے گیا،وہاں انہوں نے تدریس کے فرائض سرانجام دیئے مسلسل محنت اور مزید تعلیم حاصل کرنے کی جستجو انہیں لاہور لے آئی اور یہیں سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس وقت کے سب سے مشہور اخبار روزنامہ کوہستان سے اپنی عملی صحافت کا آغاز کیا بعد ازاں جب روزنامہ جنگ لاہور کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہوا تو انہیں روزنامہ جنگ کا پہلا اداریہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔روزنامہ جنگ سے وابستہ رہتے ہوئے ان کے کیرئیرکااختتام بھی اسی ادارے سے ہوا۔ا ن کی یادیں آج بھی ذہن میں اسی طرح تروتازہ ہیں جیسے ان کی زندگی میں تھیں روزانہ صبح سویرے آٹھ بجے سے پہلے تیار ہو کر دفتر جا تے، عمر کے آخری حصے میں بھی جب کہ ملک میں کرونا کی وبا شدید تھی وہ دفتر جا نے کیلئے ہمیشہ بے تاب ہوتے۔ صبح نماز فجر سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت ان کی زندگی کا معمول تھا رات گئے جاگنے کی بجائے جلد سو جا تے اپنی ساری زندگی میں میں انہیں سنت رسول اور اللہ کے احکام کی پاسداری کر تے ہوئے ہی دیکھا۔ والد صاحب مرحوم نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اپنائے رکھا دنیا وی زندگی کے معاملات
میں ان کی دلچسپی ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کا اللہ پر توکل بہت زیا دہ تھا اپنی وفات سے قبل انہیں جب اچانک ہسپتال لے جا نا پڑا تو وہ ایمر جنسی وارڈ میں بھی سارا د ن یہی کہتے رہے کہ یا اللہ رحمت کا مہینہ ہے رحم کر تکلیف کے آثار ان کے چہرے پرعیاں نہ ہوئے، اسی طرح سارادن ہسپتال میں رہنے کے بعد شام کو افطار کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انتہائی دردمندانہ الفاظ میں کہا کہ میں نے گھر جانا ہے۔ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے دل میں تیر کی طرح لگتے ہیں۔ بیماری کی شدت اور بے بسی کا عالم مگر زبان پر اللہ کی رحمت کے الفاظ سن کر میں خود حیران تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہو رہا ہے۔ اللہ کا ان پر خاص کرم تھا۔ اپنی ساٹھ سالہ صحافتی زندگی میں دوستوں اور عام جا ننے والوں کے لیے ان کا کام کر وانے والے پاطفیل نے اپنے
لیے کسی کو بھی فون کر نے کی زحمت نہ کی کہ رمضان کا مہینہ ہے کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ روزنامہ کوہستان سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اور اختتام روزنامہ جنگ کا ایک طویل سفر مگرہمت اور عزم واستقلال سے انہوں نے یہ سفر بخوبی طے کیا کبھی تکبر یا غرور انکے پاس بھی نہ آیا۔ انہیں ذاتی زندگی میں جا ننے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ دنیاوی دولت کا لالچ، عہدوں کی حرص یا تمنا ان کی زندگی کا کبھی مقصد نہ رہا ۔اداریہ نویسی میں کمال مہارت رکھنے کے باوجود وہ اپنے ہم عصروں میں انتہائی مقبول تھے۔ جب کبھی کسی موقع پر والد صاحب اس وقت کے نامور اور صاحب طرز صحافیوں جن میں ارشاد احمد حقانی،منو بھائی ،عباس اطہر، عبدالقادر حسن، نذیر ناجی سب کو اللہ غریق رحمت فرمائے اور دور حاضر میں مجیب الرحمن شامی صاحب اللہ انہیں صحت والی لمبی عمر زندگی عطا فرمائے،کے درمیان بیٹھتے تو ایک طالب علم کی حیثیت سے سیکھنے کے انداز میں۔ اس فانی دنیا سے ہر ایک نے واپس توجانا ہے مگر جا نے والوں کا غم اور ان کی یادیں بھی ایک حقیقت ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتااور یہ غم انسان کو اپنی زندگی کے اختتام تک لا زمی رہتا ہے۔ میں اپنے والد کو جب بھی ان کی والدہ مرحومہ کی قبر پر لے جاتا تو وہ دعا مغفرت پڑھتے ہوئے شدت جذبات سے نہ صرف غمگین ہو جا تے بلکہ ان کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہو جاتے یہی کیفیت اب میرے ساتھ اور دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ بھی ہے۔ میری تمام پڑھنے والوں سے التجا ہے کہ اگر میرے والد محترم سے کسی کو کوئی دکھ پہنچا ہو یا ان کی دل آزاری ہوئی ہو تو براہِ مہربانی انہیں معاف کر کے ان کی مغفرت کے لیے دعائے خیر ضرور کر دیں اللہ آپ کو اس کا یقینا ًبہترین اجر دے گا۔