پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی جس نے باقاعدہ جنگ کے خدشات پیدا کردیے تھے ، تمام عاقبت اندیش پاکستانی اور افغان شہریوں کیلئے سخت تشویش و اضطراب کا باعث تھی کیونکہ اس صورتحال کا جاری رہنا دونوں ہی ملکوں کیلئے تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتا تھا ۔ تاہم تقریبا چار ہفتے بند رہنے والی طورخم تجارتی گزرگاہ کے جمعے کو کھل جانے کے بعد گزشتہ روز پاکستانی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان کی کابل میں قائم مقام افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی سے ملاقات میں دونوں جانب سے معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کرنے پر اتفاق نے حالات میں خوش آئند بہتری کے امکانات روشن کردیئےہیں۔ افغانستان کے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے نمائندہ خصوصی اور افغان وزیر خارجہ کی اس ملاقات میں باہمی تعلقات اور افغان مہاجرین کی بتدریج اور باوقار واپسی پر گفتگو ہوئی اور فریقین نے مسائل کے حل اور تعلقات میں بہتری کیلئے اعلیٰ سطح پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ۔ ملا امیر متقی نے کہا کہ تجارت اور ٹرانزٹ میں رکاوٹ کسی ملک کے حق میں نہیں اور اسے دوسرے معاملات سے جوڑا نہیں جانا چاہیے جبکہ پاکستانی سفیر نے صراحت کی کہ افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانا پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے افغان شہریوں کیلئے ویزا جاری کرنے کے عمل کو آسان بنانے کا وعدہ بھی کیا۔افغان وزارت خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات، سیاسی و اقتصادی تعاون، راہداری اور دیگر مشترکہ موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔تجارتی تعلقات میں ایک اہم پیش رفت طورخم بارڈر کا 27 دن کی بندش کے بعد دوبارہ کھلنا ہے جسے 21 فروری کو تعمیراتی سرگرمیوں پر تنازع کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا اور ایک جرگے کی ثالثی کے بعد دوبارہ کھولا گیا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اچھے باہمی روابط اور خطے کا امن و امان دونوں ملکوں کی ناگزیر ضرورت ہے۔ افغان قوم چالیس سال تک جنگ کے شعلوں میں جھلسنے کے بعد اپنے ملک کی بحالی اور تعمیر نو میں مصروف ہے۔ دوسری جانب پاکستان بھی افغانستان کے خلاف دو عالمی طاقتوں کی فوج کشی کے نتیجے میں بدترین دہشت گردی کا ہدف بنارہا ۔2014ء میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے عملی منصوبہ بندی اور اس کے نفاذ کے باعث حالات میں نمایاں بہتری آگئی تھی لیکن گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے اس حوالے سے ازسرنو بڑی ابتری رونما ہوئی ہے۔ مسلسل فوجی کارروائیوں اور جوانوں کی جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ حقائق و شواہد کی بنیاد پر پاکستانی سیکورٹی اداروں کا مؤقف ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں، دہشت گردی کے بیشتر واقعات کی منصوبہ بندی وہیں سے ہوتی ہے اور افغان حکومت اپنی سرزمین کو سرحد پار دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے میں ناکام ہے۔ دوسری جانب افغان حکام کبھی پاکستان کے اس مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار اور کبھی اس حوالے سے اپنی معذوری ظاہر کرتے رہے ہیں۔ یہی وہ اصل سبب ہے جو تقریباً نصف صدی سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والی پاکستانی قوم میں منفی جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دونوں ملکوں کے درمیان مثالی برادرانہ روابط میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی اور دونوں باہمی تعاون سے ہر شعبہ زندگی میں ترقی اور خوشحالی کاسفر طے کرسکیں گے۔ امید ہے کہ باہمی رابطوں کی از سرنو بحالی کے بعد پاکستان میں جاری دہشت گردی کے مسئلے کے حل میں افغان حکومت مؤثر اقدامات کے ذریعے نتیجہ خیز تعاون کرے گی اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے بھی مہاجرین کی واپسی کے طریق کار اور دیگر جائز شکایات کا کشادہ دلی سے ازالہ کیا جائے گا۔