(گزشتہ سے پیوستہ )
بانی پاکستان و بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے 11اگست 1947ءکو کراچی میں پہلی ملکی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے تاریخ پاکستان کے 7عشروں پر محیط علمی و سیاسی جدو جہد کے حاصل پاکستان کو عالمی تاریخ کا بے مثال واقعہ قرار دیا۔ آپ نے برصغیر کی تقسیم سے دو خود مختار مملکتوں کے قیام کو ’’سائیکلون ریوولیشن‘‘ سے تعبیر کرتے کہا کہ دنیا بھی اس پر حیران تو ہوگی۔ برصغیر کی ڈیموگرافی کی کثیر الجہت اشکال، اس کی وسیع اور زیریں در زیریں ثقافتی تقسیم، مذہبی تفریق اور کتنے ہی حوالوں سے پارٹیشن آف انڈیا سے برصغیر کا دو جدید یک رنگی مملکتوں کو جنم دینا یقیناً تاریخ عالم کی ایک عظیم سیاسی واردات ہی تو تھی۔ جو بقول قائد اعظم سمندر میں برپااس تغیر کی مانند ہی تھی جس کی لہریں دور دور ساحلوں تک پہنچتی ہیں، جو سمندر کی زندگی و حرکت کو برقرار رکھتا ہے۔
یقیناً آزادی کے بعد کثیر الثقافتی دونوں نو آزاد اور ترقی پذیر مملکتوں میں سیاسی و معاشی و معاشرتی قومی یک رنگی کے لئے اپنے اپنے نظام حکومت و سیاست کے لئے آئین تیار کرکے دو جدید اقوام کی تشکیل بڑا چیلنج تھا۔ واضح رہے تقسیم ہند کے تمام فیصلے دو عظیم سیاسی جماعتوں کی پرامن سیاسی جدوجہد سے طے پانے کے بعد عین پارٹیشن کے وقت ہولناک مذہبی فسادات کا پھوٹ پڑنا اور اس کے نتیجے میں نسل کشی مانند تاریخ کا ایک اور بڑا قتل عام تو تھا جو یقیناً فرنگی حکام، اس کے ماتحت بیوروکریسی اور یوپی بہار و پنجاب و سندھ اور ملحقہ اضلاع میں ہندو مسلم بپھرے سرگرم کارکنوں بنیاد پرست مسلح سکھوں کے خونریز تصادم و قتال کا نتیجہ لیکن اس کو مائنس کردیا جائے تو کانگریس و مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اپنے تئیں تو پرامن سیاسی اور مکمل آئینی فریم میں ہی تھی، جس کی مثال پوری نو آزاد ہوئی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
آج مان لیا جائے ہر دو ملکوں کی اگلی 7عشروں کی ہی تاریخ کے تعمیر وطن مرحلے میں بھارت تو اپنے انتہائی پیچیدہ معاشرے اور مذہبی تعصبات بلند درجے پر، آئین سازی کی جلد تکمیل کے بعد اس کے اطلاق اور عملداری میں (ایٹ لارج) بڑی کامیابیاں سمیٹتا قابل رشک ترقی پذیر مملکت بن گیا۔ اب یہ تادم موجود قومی زندگی کی ان گنت خرابیوں خامیوں پر غالب ہے، لیکن آئیں اعتراف کریں کہ پاکستان بھی مثالی کامیابیاں سمیٹتا ساتھ ساتھ لڑکھتا ، واپسی ناکامیوں اور دائروں میں جکڑا جاتا رہا۔ آج یہ اپنے غالب تشخص کے ساتھ سرزمین بے آئین اور دفاع وطن کے حوالے سے اپنی عظیم کامیابی ایٹمی تشخص دنیا سے منوانے کے باوجود اپنے جمال و کمال کو کم تر کرتا حالت زوال میں ہے۔ قرضوں کی آسان ادائیگی اور بیرونی سرمایہ کاری کی آس ہمارا سہارا اور اطمینان ہے۔ وجہ فقط مطلوب آئینی و سیاسی کی روانی میں بنیادی کامیابی کے باوجود اس کو از خود ہی ٹھکانے لگانے اور جملہ اطراف کی رکاوٹیں ڈالتے ڈالتے، آج پاکستان کی قوت اخوت عوام کا سب سے کارآمد ہیومن ریسوریس، وطن میں شدت سے معتوب و محروم، بے روزگار و بے چین ، تین سمندر پار شمالی افریقہ کے ساحلوں میں تلاش روزگار کی تگ و دو میں بحرہ روم میں غرق ہو رہا ہے۔ ملکی متفقہ آئین، عجیب الخلقت حکومت و حکمرانی سے پھر سے کچھ کا کچھ ہوگیا۔
اب پھر اس کے حلیہ بگڑنے کا ماتم عام ہے۔ کونسا ایسا شعبہ قومی زندگی ہے جس میں ہم بہتری اور بدتری کی عالمی درجہ بندی میں مسلسل بدتری کا رخ نہیں کئے ہوئے اور وہ بھی تیزی سے۔ ملکی پاسپورٹ کی قدر میں اس کا بڑا عندیہ ہے۔ آئین بنتے ، بن کر بگڑتے، مارشل لاؤں کے نفاذ پر نفاذ کو نسا بگاڑ ہے جس کو ہم نے آئین مخالف جگاڑوں سے پیدا نہیں کیا۔ آج ہمارا بیش بہا نقد سرمایہ، جس کا حساب اب محال ہے، چند امیر ممالک کے ممالک میں منجمد ہے۔ ہماری حکومتوں کی اتنی ہمت نہیں کہ تمام حقائق معلوم اور قانون میں واپسی کی گنجائش کے باوجود یہ حکومتیں اپنے حلف کی پیروی میں کوئی ہاتھ پیر مارنے پر آمادہ نہیں، تاہم ہاتھ پھیلانا ہمارے حکمرانوں کے لئے آسان ترین اور بے حسی کا شرمناک درجہ۔ یہ تو غربا کے عشروں تک لگائے نقد سرمائے کے سمندروں پار ٹھکانے لگانے کی دردناک کہانی ہے او ر جو ہمارے ذہین و فطین اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ محب وطن ملک میں جگہ بننے کے طویل انتظار اور اس میں بھی فسطائیت اور آمریت کے تڑکے کے بعد جوق در جوق انتہائی نامساعد حالات میں ترک وطن پر آمادہ ہوگئے، نکل گئے اور اب باامر مجبور رک گئے۔ اب انہیں ہم پھر اصلی، سچی، پوری اور آدھی تاریخ اور ملک کے مستقبل کا اگلا ڈاکٹرائن اور ایک سے ایک ڈیزاسٹر تجربے کے انداز حکمرانی کو ماننے اور ہضم کرنے کی سعی لاحاصل کئے جا رہے ہیں۔
قارئین کرام! ہم نئی نسل کو یہ بتاتے سمجھاتے تھک گئے کہ ہمارے تمام تر قومی المیوں، عوامی دکھوں، نئی نسل کی محرومیوں اور اجاڑ خزانے، برباد معیشت، عملی سیاست کی آلودگی اور دائروں کے اذیتناک سفر در سفر کی وجہ واحد آئین کی عدم موجودگی اور موجودگی و نفاذ میں اطلاق سے بے ایمانی، دستور و حلف سے مسلسل اور بلند درجے کی بے وفائی ہے۔ لیکن ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ جمہوریت میں عوام کی عملی شراکت کا بڑا حصہ مقامی حکومتوں کو ہمارے حکمرانوں نے غصب کیا ہوا ہے۔ احتساب کے نظام سے سخت بیزار، عوامی رائے عامہ کے دباؤ سے بنایا تو اسے سیاست اور کرپشن کا بڑا ڈرامہ بنا دیا۔ 1988سے جو بحالی جمہوریت ہوئی، خود ایک بڑا حصہ عوام کی بجائے اپنی سیاست و اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا ہی دامن پکڑ کر ’’فیملی گورننس‘‘ ماڈل کو بنانے اور چلانے میں یکتا ہوگیا۔ نتیجہ طاقت کا سرچشمہ لاڑکانہ اور جاتی امرا ہی ٹھہرے۔
عوام ان سے بیزار ہوئے تو مقتدرہ نےان پر رحم کھانے کی بجائے کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے فاضل کردار حکومت سازی کا تشخص و صلاحیت خلاف آئین جاری رکھا۔ لائیرز موومنٹ سے توقع پیدا ہوئی، عدالت اور آئین کی اہمیت بڑھی لیکن مارشل لاؤں کی گنجائش پھر بھی رہی کہاں تک کہیں، کہاں تک سنائیں۔ آج دستور و حلف کی رسوائی اور ووٹ کی عزت کا جائزہ انتہائی نچلی سطح پر مکمل درست لیا جا رہا ہے۔ اب ان کے لئے اسی پر مبنی اپنا ووٹ رائے دینا اور بنانا آسان ہے۔ رائے بنائی بھی ووٹ دیا بھی، لیکن جب الیکشن کمیشن ہی کھل کر یکطرفہ ہو جائے ، عدالتیں تقسیم اور الیکشن میں جیتے ہرا دیئے جائیں تو پھر کونسا سیاسی استحکام اور کونسی بحالی معیشت۔ باریاں مکمل پوری کرنے کے ارتقائی عمل نے سیاسی استحکام کی صورت پیدا کی تو بیرونی مداخلت اور متروک ہارس ٹریڈنگ کی اسلام آباد اور لاہور میں سربازار بحالی نے ملک کو پھر بے آئین کردیا۔ جاری گدلی سیاست کو گولی ماری جائے۔ علم اور عملی سوچ و سوالوں سے اپناایک سوال کہ حل کیا ہے؟سیاسی نہیں ہر گز نہیں علمی، عملی اور عالمی سطح پر سکہ رائج الوقت کے مطابق مائنس 26ترمیم آئین بحال کرکے قانونی حکمرانی کا راستہ دیا جائے، آئین و حلف کی پاسداری اور قوت اخوت عوام کو عزت دو۔
وماعلینا الالبلاغ