• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گرد عناصر کی روزبروز بڑھتی ہوئی سرگرمیاں تشویشناک رخ اختیار کررہی ہیں ،جو قومی خود مختاری اور ملکی سلامتی کے حوالے سے نہایت سنجیدہ غوروفکر اور دانشمندانہ اقدامات کی متقاضی ہیں۔خاص طور پر بولان میں جعفرایکسپریس پر حملہ ،درجنوں مسافروں کو شہید کرنے اور سیکڑوں کو یرغمال بنائے جانے کا واقعہ اپنی نوعیت کی انوکھی واردات تھی۔جسے فوج نے کمال حکمت عملی سے کسی بڑی تباہی میں تبدیل ہونے سے بچالیا۔مگر اس کے بعد بھی مختلف مقامات پر تواتر سے ہونے والی تخریبی کارروائیاں امن وامان قائم رکھنے والے اداروںکے علاوہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔صوبائی حکومت نے اس گھمبیر اور حساس صورتحال کے پیش نظر ریاست مخالف پراپیگنڈے اور منفی سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور تمام کمشنروں اور ضلعی افسروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایسے ملازمین کی نشاندہی کی جائے اور انھیں قانون کی گرفت میں لایا جائے۔کوئٹہ میں انتظامی افسروں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں،جو وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیرصدارت منعقد ہوا،فیصلہ کیا گیا کہ ہر تعلیمی ادارے میں قومی ترانہ پڑھا جائےاور قومی پرچم لہرایا جائے۔وزیراعلیٰ نے متنبہ کیا کہ جن اداروں کے سربراہان احکامات کی پابندی نہیں کریں گے ،انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا۔امن وامان کی بحالی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ صوبے میں کوئی شاہراہ بند نہیں ہوگی،ہر ضلعی افسر اپنے علاقے میں ریاستی رٹ قائم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔کسی چیک پوسٹ پر بھتہ خوری نہیں ہوگی۔ایسی شکایات پر ایس ایچ او او ر،رسالدار لیویز اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔جو افسر یا ملازم حکومتی پالیسی کے مطابق کام نہیں کرسکتا ،رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجائے۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ تنخواہ تو سرکار سے لےاور ذاتی رائے کو حکومتی پالیسی پر فوقیت دے ۔ریاست مخالف عناصر کو فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ان کی منفی سرگرمیوں پر کڑی نظررکھی جائے،ریاستی احکامات پر عمل درآمد ہر سرکاری افسر اور اہل کار کی آئینی ذمہ داری ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاست کے ہر ادارے اور ہر فرد کی جنگ ہے،سب کو مل کر لڑنا ہے۔اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں اور وزیراعلیٰ کی ہدایات سے یہ امر واضح ہوتاہے کہ صوبے میں دہشت گردی اور دوسری منفی سرگرمیوں میںبعض سرکاری ملازمین بھی ملوث ہیں۔یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے،جس صوبے میں سیاستدانوں ، طالب علموں اور تخریبی عناصر کے علاوہ سرکاری کارندے بھی ریاست دشمن پراپیگنڈے یا دوسری منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں ،اس سے زیادہ خطرناک بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ہمیں اپنی77سالہ تاریخ میں ایسے حالات سے پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے ،ان سے سبق سیکھنا چاہئے۔بلوچستان میں روز اول سے سیاسی مزاحمتی تحریک جاری ہے ۔سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ یہی ہے کہ بلوچستان کے عوام کو حق حاکمیت اورساحل و وسائل پر اختیار دیا جائے۔یہ ایسا مطالبہ نہیں ہے کہ جس پر سنجیدگی اختیار نہ کی جائے۔کوئی اس سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو سیاسی پارٹیوں اور اہل علم ودانش کے فکری تعاون سے اسے روکا جاسکتا ہے۔اس معاملے میں طاقت کے استعمال ،تادیبی ضابطوں اور سخت کارروائیوں سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے۔بلوچستان کے ناراض لوگوں کو دیوار سے نہیں، گلے سے لگانے کی ضرورت ہے۔اسی صورت میں ان کے اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کے گھنائونے عزائم ناکام بنائے جاسکتے ہیں۔پالیسی سازوں کو مسئلے کے اس جمہوری حل کی طرف آنا چاہئے ۔تدبر،تفکر اور تحمل ہی ایسے معاملات میں کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین