• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو خشک سالی جیسے خطرناک چیلنج کا سامنا ہے۔موجودہ صورتحال زراعت،معیشت اور عوام کی روزمرہ زندگی پر سنگین اثرات ڈال سکتی ہے۔محکمہ موسمیات نے ملک میں معمول سے کم بارشوں کے باعث خشک سالی کا الرٹ جاری کیا ہے جس کے مطابق یکم ستمبر 2024سے 21مارچ 2025تک بارش کا حجم معمول سے 40فیصد کم رہا۔ بارش کی سب سے زیادہ کمی سندھ میں 62فیصد، بلوچستان میں 52فیصد، پنجاب میں 38فیصد دیکھنے میں آئی۔ خیبر پختونخوا میں 35فیصد، آزاد کشمیر میں 29فیصد اور گلگت بلتستان میں 2فیصد معمول سے کم بارشیں ہوئیں جن سے پیداوار میں 50فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیادوں پر خشک سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ملک کا ایک بڑا حصہ بارانی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں زراعت کا انحصار بارشوں پر ہے۔ شمالی علاقوں میں فی الحال درجہ حرارت کم ہونے کے باعث برف پگھلنے کا عمل انتہائی سست ہے اور مختلف دریاؤں میں بہائو انتہائی کم سطح پر ہے۔تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ چکی ہے۔موجودہ موسمی صورتحال اور موسمیاتی نکتہ نظر کے پیش نظر آنے والے دنوں میں خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔اور اس کے فصلوں پر پڑنے والے اثرات سے غذائی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ دادو، تھرپارکر، ٹھٹھہ، کراچی، بدین، حیدرآباد، عمر کوٹ، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، سکھر، خیر پور، سانگھڑ، گوادر، کیچ، لسبیلہ، پنجگور، آواران اور چاغی خشک سالی کی زد میں ہیں جبکہ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان متاثر ہو رہے ہیں۔ آبی ذخائر کے ماہرین بھی خبر دار کر چکے ہیں کہ مستقبل میں پانی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ان سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر مربوط کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین