• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہلِ یورپ کے دستور: بیش تر لائقِ تقلید، چند ایک قابلِ تنقید

سیر وسیّاحت کے شیدائیوں کے لیے یورپ ایک پُرکشش منزل ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی سرسبز وادیوں سے لے کر برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ترقّی یافتہ ممالک تک، ہر مزاج اور عُمر کے افراد کے لیے اُن کی دل چسپی کے تفریحی اور علمی مقامات موجود ہیں۔

ایشیا، خاص طور پر پاکستان سے یورپ جانے والوں کے لیے وہاں کے سیّاحتی مقامات کے ساتھ، دوسری قابلِ غور بات اہلِ یورپ کے معاشرتی طور طریقے ہیں، جن کے سبب اُن کا شمار دنیا کی منظّم ترین اور ترقّی یافتہ اقوام میں کیا جاتا ہے۔ ہمیں پچھلے سال یورپ کے چند ممالک کی سیّاحت کا موقع ملا۔سو، دورانِ سفر وہاں کے معاشرتی نظام اور لوگوں کی عادات اور رویّوں کا بغور جائزہ لے کر اُن اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جو اُن کی ترقّی کا سبب اور ہمارے لیے بھی کسی حد تک قابلِ تقلید ہیں۔

نظام کے غلام: یورپی اقوام اُس نظام کی غلام ہیں، جو اُن کی حکومتوں نے اُن کے لیے بنایا ہے۔وہ نظام پر تنقید تو کرتے ہیں، مگر اُسے توڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ راقم نے نیدرلینڈ(ہالینڈ) کے ایک چھوٹے سے شہر کی سڑک پر چند سائیکل سوار مرد و خواتین کو احتجاج کرتے دیکھا، تو استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ وہاں سائیکل سواروں کے لیے نصب ٹریفک سگنل ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ سائیکل سوار سڑک سے آرپار جاتے وقت، پولیس کی غیر موجودگی میں بھی اس سگنل کی ہدایات پر سختی سے عمل کر رہے تھے، جسے ہٹانے کا مطالبہ لے کر وہ وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔بسز اور ریل گاڑیوں میں سوار ہوتے وقت یہ لوگ قطار بناتے ہیں اور خود اندر داخل ہونے سے پہلے، اُترنے والوں کو راستہ دیا جاتا ہے۔

کوڑا کرکٹ اِدھر اُدھر پھینکنے کا تو تصوّر بھی محال ہے۔ کیا ہم بھی اپنے نظام کے غلام ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یہاں نظام ہمارا غلام ہے۔ ہم ٹریفک کا اشارہ توڑنے کے بعد اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے ٹریفک وارڈن سے بے جا بحث کرتے ہیں۔جب کہ باشعور اقوام جانتی ہیں کہ وہ کسی نظام کی پیروی کے تحت ہی پُرسکون زندگی گزار سکتی ہیں۔

معاشی رویّے: ان ممالک کی تعمیر و ترقّی میں اُن کے عوام کے معاشی رویّوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ پیرس میں دنیا کے منہگے ترین بازار میں فروخت ہونے والی ہر چیز جدید ترین فیشن کے مطابق ہے۔ راقم نے ایک چھوٹے سے لیڈیز بیگ کی قیمت دریافت کی، تو6500یورو، یعنی 18لاکھ روپے بتائی گئی۔

ظاہر ہے، اُسے خریدنے والے بھی موجود ہوں گے، لیکن اُن کی تعداد بہرحال بہت محدود ہے۔ خریداروں میں زیادہ تعداد دنیا بَھر سے آئے فیشن کے دل دادہ امراء اور شوبز سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔یورپ میں لوگوں کے معیارِ زندگی میں زیادہ فرق نہیں یا یوں کہہ لیں کہ یورپ کے باسی طبقاتی کشمکش سے بڑی حد تک آزاد ہیں اور اس کی ایک اہم وجہ کالے دھن کی غیر موجودگی ہے۔

خرید وفروخت میں نقد رقم کی جگہ بینک کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔اگر آپ نے ریلوے اسٹیشن پر بیت الخلا استعمال کرنا ہے، تو اپنے بینک کارڈ کو مشین پر اسکین کریں، ایک لمحے میں آپ کے اکاؤنٹ سے ایک یورو کاٹ لیا جائے گا۔اِسی طرح ریل کے ٹکٹس، روزمرّہ اشیا کی خریداری سے لے کر الیکٹرانکس آلات تک کی ادائی، بینک کارڈز ہی کے ذریعے کی جاتی ہے۔

گویا، آپ جو اور جہاں سے بھی کما رہے ہیں، اُس کی تمام تر تفصیلات بینک کے پاس موجود ہیں۔ گھر یا جیب میں زیادہ کیش رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ، سیّاح نقد رقم سے عام استعمال کی اشیاء خرید سکتے ہیں۔ جرمنی میں راقم نے بیس یورو(600روپے) کی خریداری کی اور دُکان دار کو 50یورو کا نوٹ دیا، تو اُس بے چارے نے ہمیں بغور دیکھنے کے بعد نوٹ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اُس کے پاس دینے کو بقایا 30یورو کی رقم موجود نہیں۔یہ نظام ایسے ممالک کے لیے بہت سود مند ہے، جہاں عوام کو کالا دھن جمع کر کے گھروں میں رکھنے کی عادت ہو۔

آمد ورفت کے ذرائع: شہر کے اندر آمد و رفت کے لیے سائیکلز کا استعمال عام ہے۔ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجیئم میں تو یہ ہر عُمر کے مرد و خواتین کی پسندیدہ سواری ہے۔ سڑک اور فُٹ پاتھ کے درمیان سُرخ رنگ کی لین سائیکل سواروں کے لیے مخصوص ہے، جسے گاڑیاں اور پیدل چلنے والے بلاوجہ استعمال نہیں کرتے۔ کچھ سائیکلز پر چھوٹے بچّوں کو بِٹھانے کے لیے پلاسٹک کے کیبن بھی لگالیے جاتے ہیں۔ راقم نے بیلجیئم کے شہر، برسلز میں ایک بزرگ شہری کو، جس کی عُمر کم وپیش اَسّی سال تھی، بڑی مہارت سے سائیکل چلاتے دیکھا۔

جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی سائیکل چلانے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ سائیکل کا استعمال کئی طریقوں سے مفید ہے۔ایک تو دیگر سواریوں کی نسبت اس پر خرچہ بہت کم آتا ہے، پھر پارکنگ جیسے مسائل سے بھی کم ہی پالا پڑتا ہے، جو ان ممالک میں بہت منہگی ہے اور ناپید بھی۔ 

پھر یہ کہ سائیکل چلانا انسانی صحت کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ جن ممالک میں سائیکل کا زیادہ استعمال ہے، وہاں موٹاپے کی شرح کم ہے۔ یہاں بازاروں میں بزرگوں کی بڑی تعداد اپنے روز مرّہ امور سرانجام دیتی نظر آئے گی۔سائیکلز کے علاوہ بسز اور ریل گاڑیوں کا عُمدہ نظام بھی عوام کو بہت سہولت فراہم کرتا ہے۔

اسکولز کے لیے خصوصی بسز کا نظام ہے۔ ان سب سہولتوں کے باعث لوگ کام پر جانے کے لیے اپنی ذاتی گاڑی کم ہی استعمال کرتے ہیں، جس سے ماحول کو صاف رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں سڑکیں ہم وار ہیں اور اُترائی یا چڑھائی بہت کم ہے۔ گویا، ہمارے شہر سائیکل چلانے کے لیے بہت مناسب ہیں، لیکن یہاں سائیکل کے استعمال میں کمی، جب کہ موٹر سائیکل کا بڑھتا استعمال ٹریفک اور ماحولیاتی مسائل پیدا کر رہا ہے۔

حقوق العباد کا اہتمام: یورپ کے باسی اپنے حق کی حفاظت کے ساتھ، دوسروں کے نجی معاملات میں بے جا مداخلت سے پرہیز کرتے ہوئے اِس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ کسی کی تکلیف کا موجب نہ بنیں۔ عین ممکن ہے کہ اُنھیں یہ معلوم نہ ہو کہ اُن کے پڑوس میں کتنے افراد رہتے ہیں اور وہ کیا کام کرتے ہیں، مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ اُن کے دروازے کے سامنے یا ہم سائے کی پارکنگ کے لیے مخصوص جگہ پر اپنی گاڑی کھڑی کر دیں یا اُن کی کسی عادت کے باعث اُن کے ہم سائے کو تکلیف ہو۔

ایک بار جرمنی میں ہمارے میزبان کے اپارٹمنٹ میں پاکستانی مہمانوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی، جن میں چھوٹے بچّے بھی شامل تھے، تو زیادہ شور پر وہ بچّوں کو یہ کہہ کر خاموش کرواتے رہے کہ’’شور سے ہم سائیوں کو تکلیف ہو گی۔‘‘وہاں دوسروں کی مدد عموماً اُسی وقت کی جاتی ہے، جب وہ مدد کی درخواست کریں۔ بلاوجہ کسی کے معاملات میں ٹانگ اَڑانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جرمنی ہی میں ریلوے اسٹیشن پر دو نوجوانوں کو اُلجھتے دیکھا، جو چیخنے کے ساتھ ایک دوسرے کو دھکّے بھی دے رہے تھے، مگر اسٹیشن پر موجود درجنوں افراد اُن سے لاتعلق کھڑے اپنے موبائل فونز میں مگن تھے اور صرف راقم ہی یہ تماشا دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔

سیّاحت کے مواقع :سیّاحت(بشمول ہوٹلز/ ٹرانسپورٹ) کی صنعت، دنیا میں دوسری بڑی صنعت سمجھی جاتی ہے۔ یورپ کے آٹھ ممالک دنیا کے دس مشہور سیّاحتی ممالک میں شامل ہیں۔ سیّاحتی مقامات میں ایفل ٹاور، قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات،چرچ، محلّات اور مختلف حوالوں سے بنے عجائب گھر بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ، قدرتی نظاروں کے لیے سوئٹزر لینڈ کے پہاڑ، ہالینڈ اور بیلجیئم کی نہریں، رنگ برنگے پھول بھی سیّاحوں کے لیے خاص کشش کے حامل ہیں۔

اگر پاکستان کے سیّاحتی وَرثے کو دیکھا جائے، تو یہ ہر طرح سے یورپ کا مقابلہ کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سرسبز وادیاں اور برف پوش پہاڑی چوٹیاں اپنی رعنائیوں میں سوئٹزرلینڈ سے کسی طرح کم نہیں۔ اِسی طرح وادیٔ سندھ کی تہذیب کی باقیات اور کے پی کے میں گندھارا، تاریخ میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے بڑی کشش کا باعث ہیں۔

پیرس کا عجائب گھر لورغ(Louvre)دنیا کا سب سے بڑا اور مشہور عجائب گھر ہے، جہاں آرٹ کا مقبول ترین شاہ کار، مونا لیزا کا پورٹریٹ سیّاحوں کی دل چسپی کا محور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2024ء میں لورغ عجائب گھر کو نوّے لاکھ سے زیادہ شائقین نے دیکھا، جب کہ پیرس ہی کے ایفل ٹاور کی ستّر ہزار افراد نے سیر کی۔جن افراد نے پیرس اور لندن وغیرہ کے عجائب گھروں کے علاوہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے عجائب گھر بھی دیکھے ہیں، وہ اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اِن میں فرق صرف عمارت کی وسعتوں کا ہے۔

لاہور اور کراچی کے عجائب گھروں میں آرٹ اور تاریخ کے نمونے بہتر ترتیب اور تفصیل سے موجود ہیں، جب کہ تمدّنی عجائب گھروں میں لوک وَرثہ میوزیم بے مثال ہے۔ اِسی طرح مغلیہ عہد کے باغات، مساجد اور شاہی قلعے تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ البتہ، اپنے وَرثے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فن کوئی اہلِ یورپ سے سیکھے۔

برسلز میں ایک چھوٹے سے مجسمے’’امریکن پی‘‘ کی بڑی دھوم ہے اور سیّاحوں کی ایک بڑی تعداد ہر وقت وہاں موجود رہتی ہے۔ اصل مجسمہ تو انیسویں صدی میں بنا تھا، جو چوری ہو چُکا ہے اور موجودہ مجسمہ اُس کی نقل ہے، مگر اِس کے باوجود رات تک سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے، جس کی وجہ اِس مجسمے کی اشتہار بازی کے سِوا کچھ نہیں۔

وقت کی قدر: ہمارے ہاں سڑکوں پر دوڑ لگاتی ویگنز اور موٹرسائیکلز کو دیکھ کر لگتا ہے، شاید ہم وقت کے بہت پابند ہیں۔ یہاں ہر شخص جَلدی میں ملے گا اور اِسی جَلدی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے سمیت سب کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔

یورپ میں کام پر تاخیر سے پہنچنے کا رواج نہیں ہے۔ہر شخص نے اپنے گھر سے دفتر تک پہنچنے کے دورانیے کا حساب لگا رکھا ہے۔بسز اور ریل گاڑیاں بھی اپنے وقت پر ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں۔یورپی شہروں میں ہفتہ، اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں زیادہ تر سیّاح ہی نظر آتے ہیں کہ مقامی لوگ چھُٹی کے دن ہی سیر وتفریح اور گھر کے کاموں کو ترجیح دیتے ہیں۔

سچ بولنے کی عادت: یورپ کے باسی عمومی طور پر سچ بولنے کے عادی ہیں اور اِسی لیے ایک دوسرے کی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے کام کی جگہ فون کرکے بیماری یا کسی ضروری کام کے لیے چُھٹّی کی درخواست کرے، تو اُس کی بات پر یقین کیا جاتا ہے۔یورپ سے واپسی پر سیّاح ایئرپورٹ پر بِل دِکھا کر اپنی خریداری پر لیا گیا حکومتی ٹیکس واپس لے سکتے ہیں۔

روانگی کے وقت جب ہم یہ رقم واپس لینے مطلوبہ جگہ پہنچے، تو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اکثر لوگوں کو یہ رقم بغیر کسی تحقیق کے واپس کی جارہی تھی اور محض ایشیائی باشندوں ہی کا سامان کھلوا کر خریداری کی تصدیق کی جاتی تھی۔ ہم نے اپنی باری پر ڈیوٹی پر تعیّنات افسر سے اس امتیازی سلوک کی بات کی، تو وہ ہنس کر بولا’’ہم صرف اُن کا سامان دیکھتے ہیں، جن پر ہمیں شک ہوتا ہے۔‘‘ یقین ہے کہ یہ بات اُنھوں نے کسی تلخ تجربے ہی سے سیکھی ہو گی۔

کچھ گلے شکوے: مغربی ممالک میں بزرگوں کی زندگی آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ یہاں بزرگوں کو پینشن اور علاج معالجے کی سہولتیں میسّر ہیں۔ بسز اور ریل گاڑیوں وغیرہ کے کرایوں میں بھی اُنھیں رعایت حاصل ہے۔سرِراہ چلتے بزرگ افراد کی ہر کوئی عزّت کرتا ہے اور سب کی کوشش ہوتی ہے کہ اُنھیں کوئی تکلیف نہ ہو، مگر ان سب باتوں کے باوجود، یہ لوگ تنہائی کا شکار ہیں۔ان کی جوان اولاد اُنھیں چھوڑ کے جانے کے بعد صرف کرسمس جیسے تہواروں ہی پر ملنے آتی ہے۔

یورپ میں آبادی کے نزدیک مارکیٹس میں آپ کو ایسے بزرگ افراد ضرور نظر آتے ہیں، جو ضعیف العمری کے باوجود اپنے گھر کے کام خود کرنے پر مجبور ہیں۔اچھی صحت کے باوجود، اُن کی نگاہیں تنہائی کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔یورپ میں سڑکوں کے کنارے اور بس اسٹاپس پر بیٹھے نوجوان جوڑوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں شرم وحیا کے معیار ہم سے بہت مختلف ہیں اور یقیناً کسی صُورت قابلِ تقلید بھی نہیں ہیں۔برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی سمیت اکثر ممالک میں کچھ دُکانیں ایسی بھی ہیں، جہاں ہم جیسے لوگ تو جانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔

لوگ تنہا یا خود میں گم رہنے کو پسند کرتے ہیں۔گھنٹوں ساتھ بیٹھ کر سفر کرنے کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رسمی علیک سلیک سے آگے نہیں بڑھتے اور یہی حال اُن کا عام زندگی میں بھی ہے۔ چُھٹی کے روز کے علاوہ یہ دفتر کے بعد بلاوجہ نہ تو کسی کے گھر جاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ملنا پسند کرتے ہیں۔