• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں برقیات کا شعبہ جہاں 1970ءکی دہائی تک منصوبہ بندی کے عین مطابق بجلی کی طلب و رسد اور قیمتوں کے معاملے میں توازن کے ساتھ فعال رہا ،وہیں 80کی دہائی اس کارکردگی کوبڑھانے کی بجائےمتذکرہ طلب و رسد میں توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اس بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس کا آج 25کروڑ افراد سامنا کررہےہیں۔صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ مہنگی بجلی روز مرہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اور مہنگے تیل و گیس، بجلی کی پیداوار میںاسی قدر مالی مسائل کا موجب بن رہے ہیں۔بالآخر سارا ملبہ غریب اور عام آدمی پرگر رہا ہے،جو گرمی کے گزشتہ سیزن میں گھریلو ساما ن پیچ کر بجلی کے ہوشربا بل ادا کرنے پر مجبور ہوا۔تازہ ترین میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)نے کیپٹیوپاور پلانٹس پر لیوی سے حاصل ریونیو کی مد میں بجلی ٹیرف میں ایک روپیہ فی یونٹ کمی پر اتفاق کیا ہے،جس کی رو سے تمام صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف ملے گا۔دوسری جانب حکومت بجلی صارفین کو قیمتوں میں ریلیف دینے کیلئے گزشتہ آٹھ ماہ سے کوشاں ہے ،جس کا پیکیج حتمی مراحل میں ہے، عوام ان لمحات کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں جب وزیراعظم شہباز شریف اس کا اعلان کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی متذکرہ منظوری بجلی کی قیمت میں ایک روپیہ کمی یعنی 500یونٹ پر 500روپے کی بچت دے گی۔واضح رہے کہ گزشتہ برس بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے تاریخی اضافے نے ملک میں غریب اور عام آدمی کو انتہائی مشکل میں ڈال دیا۔جس کا ادراک کرتے ہوئے حکومت مہنگے ثابت ہونے والےآئی پی پیز کے خلاف نبرد آزما ہے۔جس میں حکومت کے بقول، بڑی کامیابی ملی ہے۔دسمبر2024میں سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ایک عام صارف اوسطاً 45روپے فی یونٹ بجلی خریدنے پر مجبور ہے ۔اس ایک یونٹ کی قیمت میں 15.28روپے کے ٹیکس ،سات پیسے نئے سال کا اضافہ،بلوں میں 3.10روپے مارجن کی مد میں،1.37روپے ٹرانسمیشن چارجز،17.1روپے فی یونٹ کپیسٹی پے منٹ کے طور پر ادا کیے جاتے ہیں۔جبکہ سات قسم کے ٹیکس چارجز ،مارجن اور ایڈجسٹمنٹ ملاکر یہ رقم 45روپے پر جاپہنچتی ہے۔تین ماہ قبل نیپرا نے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والی بات چیت اور اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کی رو سے بجلی کی قیمتوں میں ممکنہ طور پر 20روپے فی یونٹ کمی کا فارمولا تیار کیا تھا۔نیپرا نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بڑھتے ہوئے نقصانات اور وصولیاں کم ہونے سے ایک سال میں حکومت کو ساڑھے 590ارب روپے کا نقصان ہوا۔ملک میں جہاں بجلی صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے ،وہیں یہ بات بھی کسی طور نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ خیبر سے کراچی تک بجلی چوری کرنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ،جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میںکس قدر بجلی چوری ہورہی ہے جسے لائن لاسز کانام دیا جاتا ہے۔بجلی چوری کے خلاف چلنے والی ادھوری مہم میںصنعتوں سے وابستہ بعض بڑے کیس بھی پکڑے گئے تاہم نہ جانے کونسی مصلحتیں ہیں کہ آج تک قانون کے ہوتے ہوئے بھی ملک سے بجلی چوری ختم نہیںہوسکی۔ ضروری ہوگا کہ اس کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ مراعات یافتہ طبقے کو مفت بجلی دینے کی سہولت ختم کی جائے۔آئی پی پیز سے نمٹنے اوران اقدامات کی بدولت یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بجلی کے نرخ آسمان سے زمین پر آگریں گے،جس سے نہ صرف عام آدمی سکھ کا سانس لے گا بلکہ صنعتی و تجارتی ماحول پھلے پھولے گا۔مزید ضروری ہوگا کہ سستی بجلی پیدا کرنے کےتمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

تازہ ترین