• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کے دشوار چیلنج کا سامنا ہے تاہم 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں نافذ کی جانے والی متفقہ قومی حکمت عملی سے اس مسئلے پر اطمینان بخش حد تک قابو پالیا گیا تھا،لیکن افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد اس مسئلے نے از سرنو سراٹھایا اور ملک کے دوصوبوں بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کی کارروائیاں روز بروز بڑھتی چلی گئیں۔ مقامی و بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ہماری قومی معیشت کی ترقی میں دہشت گردی ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عالمی دہشت گردی پر نظر رکھنے والے ممتاز تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025کے مطابق پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔دہشت گردی کی کامیابی سے روک تھام کیلئے موجودہ حالات کے مطابق ایک متفقہ قومی حکمت عملی کا تعین ضروری ہے۔ اس حوالے سے یہ ایک امید افزا پیش رفت ہے کہ گزشتہ روزملک کی سیا سی و عسکری قیادت کے ایک مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف وفاقی اور صو با ئی حکومتوں نے متحد ہو کر واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنا نے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ گزشتہ روز وزیرِ اعظم شہباز شریف کے زیرِ صدارت وفاقی اور صوبائی حکام اور عسکری قیادت کے اجلاس میںکیا گیاجس میں چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندے بھی شریک تھے۔اجلاس میں طے پایا کہ جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی‘ روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملک دشمن مہم کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مضبوط کیاجائے گا،ڈیپ فیک اور دیگر ذرائع سے بنائی گئی جعلی خرافات کا مستند معلومات سے بھرپور توڑ کیاجائے گا اور قومی نصاب میں دہشت گردی کے حوالے سے آگاہی شامل کی جائے گی۔ اجلاس میں قومی بیانیہ کمیٹی کو د ہشت گردوں اور شر پسندوں کے سد باب کیلئے مؤثر اور سرگرم بیانیہ بنانے کی ہدایات دی گئیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ قومی بیانیے کو نوجوانوں تک پہنچانے کیلئے فلموںاور ڈراموں میں ایسے قومی موضوعات اپنائے جائیں گے جس سے شر پسندوں کے بیانیے کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ طے پایا کہ قومی بیا نیے کیلئے ڈیجیٹل میڈیا پر بھی مواد نشر کیا جائے گا نیز دہشت گردی کے منفی معاشرتی اثرات کو اجاگر کیا جائے گا۔ تاہم ان فیصلوں پر نتیجہ خیزعمل درآمد کیلئے ملک میں گزشتہ کئی سال سے جاری سیاسی انتشار اور محاذ آرائی پر قابو پایا جانا بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنے اور تجارت و معیشت کے شعبوں میں تعاون کی بحالی کے حوالے سے حال ہی میں بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، اسے جاری رکھنے اور ثمرآور بنانے کی بھی ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔ علاوہ ازیں کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف خطے کے دوسرے ملکوں یعنی چین، روس، ترکی اور ایران سمیت بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کی تدابیر بھی اختیار کی جانی چاہئیں کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں۔ بلوچستان کی صورت حال کی بہتری کیلئے عوامی طبقات کی محرومیوں اور جائز شکایات کے ازالے کے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ ناراض عناصر سے مکالمے کے دروازے کھلے رکھے جانے چاہئیں کیونکہ ان میں سب بیرونی ایجنٹ نہیں ہیں بلکہ ان کی ایک بڑی تعداد منفی حالات کے سبب مایوسی کا شکار ہوجانے والے نوجوانوں کی ہے لہٰذا ان کا مؤقف تحمل اور کشادہ دلی سے سنا جانا چاہیے اور ان کی جائز شکایات دور کی جانی چاہئیں کہ مسائل بالآخر بات چیت اور افہام و تفہیم ہی سے حل ہوتے ہیں۔

تازہ ترین