• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری والدہ مرحومہ عصمت صدیقی نے گھر کے دروازے پر قرآن کی یہ آیت نصب کی ہوئی ہے ’’لا تحزن ان اللہ معنا‘ اور واقعی اگر قرآن پاک قدم قدم پر ہماری رہنمائی نہ کر رہا ہوتا تو شاید آج میں مایوسی کے عالم میں کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہوکر بستر سے لگ چکی ہوتی، یہ قرآن ہی کا اعجاز ہے کہ جب ہم پر مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو قرآن لاتقنطو کہہ کر ہمیں اس کیفیت سے نکالتا ہے، میں اسوقت جہاں دل شکستہ اور مشتعل ہوں وہیں شدید ہیجان میں ہوں کہ جب سے ہماری وزارت خارجہ (MOFA) نےاسلام آباد ہائی کورٹ میں دعویٰ کیا ہےکہ انہوں نے میری پیاری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے ’’میری تمام درخواستیں پوری کر دی ہیں‘‘ جبکہ حقیقت میں انہوں نے دس سال انصاف میں تاخیر اور عدالت کی حکم عدولی میں گزارے، اور کوئی اہم کامیابی حاصل نہ کی۔ انصاف میں تاخیر بجائے خود ناانصافی ہے۔ یہ ایک ظلم ہےاور میں اپنے سوالات کا جواب چاہتی ہوں۔ دو دہائیوں سے میں عدالتوں سے وزارت خارجہ سے صرف اسکی بنیادی ذمہ داری پوری کروانے کی درخواست کر رہی ہوں ان کا کام بیرون ملک مصیبت میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی مدد کرنا ہے۔ میری بہن عافیہ کے ساتھ جو زیادتی ظلم اور نا انصافی ہوئی اس کو تاریخ سیاہ دور کے طور پر یاد رکھے گی۔ سب سے پہلے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمیں چپ رہنے کیلئے کہا جاتا ہےعافیہ کو 2003 میں کراچی سے انکے بچوں سمیت اپنوںہی نے اغوا کیا تھا۔ وزارت خارجہ کو لگتا ہے کہ اب عافیہ کیلئے کچھ نہیں کیا جا سکتا، لیکن پرویز مشرف امریکیوں کا ہر حکم پورا کرنے کیلئے تیار تھے، خاص طور پر جب بش انتظامیہ نے ان کی جیبیں بھرنے کیلئے55,000 ڈالر ایک بیٹی کے عوض دیے۔ اس کا حوالہ گورڈن ڈف نے بھی دیا ہے۔میں نے 2015 میں رٹ پٹیشن دائر کی تاکہ ہماری علیل والدہ اپنی موت سے پہلے اپنی لاڈلی اور سب سے چھوٹی بیٹی کو آزاد دیکھ سکیں۔ لیکن کچھ نہ کیا گیا، اور وہ 2022 میں انتقال کر گئیں۔ ہماری وزارت خارجہ کچھ نہ کرکے بے حسی سے کہتی ہے کہ سب کچھ کر دیا۔ افسوس وزارت خارجہ ڈھٹائی سے یہ کہنے کی جرات کر رہی ہے کہ انہوں نے میری بہن سے ملنے کے لیے ڈاکٹر اقبال آفریدی کو اندر جانے میں مدد کر کے کافی کچھ کیا ہے – حالانکہ ڈاکٹر اقبال یہ کہہ کر آئے تھے کہ عافیہ کوفوری طور پر اس طبی امداد کی ضرورت ہے جو انہیں امریکی بیورو آف پرزنز کی طرف سے نہیں دی جا رہی۔ میں نے پچھلے کئی سال سے مطالبہ کیا ہے کہ وزارت خارجہ عافیہ کے ساتھ ایف ایم سی کارسویل میں ہونے والی عصمت دری کو روکے،اس پر انہوں نے عدالت میں دلیل دی کہ انہوں نے کافی کچھ کیا ہے (حالانکہ کچھ نہیں کیا)۔ میرا مطالبہ ہے کہ وزارت خارجہ ہمارے امریکی وکیل، کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کے موقف کی حمایت کرے، جو عافیہ کی سزا کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ رہائی کی پٹیشن دائر کرنے والے ہیں۔ وزارت خارجہ عافیہ کی حمایت اس لئے نہیں کرئیگی کیونکہ انہیں وہ سچ پسند نہیں جو کلائیو اسٹافورڈ بتا رہے ہیں۔ یہ اسکے باوجود ہے کہ حکومت کے قانونی مشیر (اٹارنی جنرل) نے خود کہا کہ انکی حمایت کرنا بالکل ممکن ہے بلکہ قومی فریضہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج سردار اعجاز اسحاق خان ایک ایماندار اور شریف آدمی ہیں۔ وہ صرف ہماری قوم کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، دوسرے لفظوں میں، وزارت خارجہ کے برعکس، وہ اپنا کام کر رہے ہیں جسکیلئے انہیں مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن وزارت خارجہ ناانصافی کے خواہشمند گروہ میں شامل ہو گئی اور چاہتی ہے کہ عافیہ کا مقدمہ کسی منظور نظر جج کے پاس لے جایا جائے جو انہیں اپنا کام کرنے کا حکم نہ دےان کی تابعداری کرے۔ سابق وزیر اعظم محترم نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی غیر قانونی اور پوشیدہ قید بین الاقوامی سطح پر پاکستانی شہریوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک مثال ہے۔ یہ قوم کے وقار پر ایک سیاہ دھبہ ہے جب ایک خاتون اس قدر گھناؤنے صدمے سے گزر رہی ہے۔ اس واقعے میں فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس لیے انکے مقدمے کو اقوام متحدہ میں اجاگر کیا جانا چاہیے۔‘‘ اور ان کے بھائی، ہمارے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن انکی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کا خط جو بائیڈن تک نہیں پہنچایا اور اب کہتی ہے کہ انہوں نے کافی کچھ کیا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ مجھ سے خاموشی سے بیٹھنے اور اسے قبول کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نا انصافی کے علمبرداروں نے پہلے بھی مجھے ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے میرے گھر کے باہر لاشیں پھینکیں۔ انہوں نے مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر کسی نامعلوم تہہ خانے میں لے جا کر دھمکیاں دیں۔ انہوں نے انصاف کے حصول کیلئے ہماری کوششوں کو کمزور کرنے کیلئے میری بہن کے بارے میں جھوٹ شائع کرنے کی دھمکی دی۔ ہمارے خاندان نے بہت اذیت برداشت کی لیکن مجھے یہ خیال واقعی ناگوار لگتا ہے کہ اگر میں عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اپنے حکمرانوں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی وجہ سے دنیا کے کسی اور ملک چلی جائوں یا کہیں پناہ لینا چاہوں تو مجھے یقین ہے کہ برطانیہ اور کئی ممالک منصفانہ تعاون کریں گے۔ لیکن کیا میں بھاگنا چاہتی ہوں؟ بالکل نہیں۔ اور میں خاموش بھی نہیں بیٹھوں گی۔ آخر میں میں ہر سطح پر انصاف، احتساب اور تمام پاکستانیوں کی تذلیل اور استحصال کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہوں۔ پوری پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ اللہ نے قرآن پاک کی سورہ بلد میں فرمادیا ہے کہ قیدی کو چھڑانے کی ذمہ داری ادا کرو، اس کیلئے گھاٹی سے اترنے کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی قیدی کو چھڑانا، یہ ذمہ داری حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے اور تمام مسلمانوں کی بھی ہے۔ہم نے اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں بھی دائر کردیا ہے اور ہماری والدہ اس کی پیروی کیلئے اللہ کے حضور پیش ہوچکی ہیں۔

نوٹ:اس موضوع پراگرکوئی اپنا موقف پیش کرنا چاہے تو جنگ کےادارتی صفحات حاضر ہیں۔

تازہ ترین