پائیدار ترقی اور عوامی مشکلات کے خاتمے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام کی فضا کو بہتر کرنا ہو گا۔ باہمی تعاون اور سیاسی بصیرت سے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے ملک و قوم کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فارم 47والے پاکستان کو درپیش مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی کو بھی عوام کے مسائل کے حل سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی قومی سلامتی اور عزت و وقار کی قدر ہے۔ملکی حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں مزید توسیع عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سود اور قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی ترقی نہیں کر سکتی، سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو بھی دنیا نے آزما لیا ہے۔ پاکستان اورعالمی سطح پر معاشی، سیاسی سمیت تمام بحرانوں کا حل اسلامی نظامِ معیشت، معاشرت و حکومت میں ہے۔ پاکستان کی گزشتہ 77سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور پاکستان کو معاشی بحران کے ایسے گرداب میں دھکیل دیا کہ جس سے واپسی بڑی مشکل نظر آرہی ہے۔ ایک طرف حکومت اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحق ڈار بھاری بھرکم وفود لے کرپوری دنیا کے دورے کر رہے ہیں۔جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف ا سٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے اس وقت تک عوام کا اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی ملک کے اندر معیشت ٹھیک ہو گی۔ ایف بی آر کی جانب سے سینیٹ کمیٹی کی ہدایات کے برخلاف ہر صورت میں اربوں روپے کی لگژری گاڑیاں خریدنے کا اعلان بھی لمحہ فکریہ اور آئین و پارلیمنٹ کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔وطن عزیز پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ کرپشن اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے،نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں، ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے مگر مجال ہے کہ ملک کی اشرافیہ، حکمران اور بیورو کریسی از خودکفایت شعاری کو اختیار کر نے کو تیار ہوں۔اب رہی سہی کسر ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات 200 فیصد اضافے کی منظوری نے پوری کر دی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات میں 200 فیصد اضافے کی منظوری 25کروڑ عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں اضافے پر یک زبان ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم کی منظوری کے بعد ہر ایم این اے اور سینیٹر کو کٹوتیوں کے بعد 5لاکھ 19ہزار ماہانہ تنخواہ اور مراعات ملیں گے جبکہ ان کو دیگر سہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے برابر ملیں گی۔ 16دسمبر 2024کو پنجاب اسمبلی میں بھی عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024 منظوری کیے جانے کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76ہزار سے 4لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9لاکھ 60ہزار کر دی گئی تھی۔ اسی طرح ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھا کر 7لاکھ 75ہزار روپے کردی گئی تھی، پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر 4لاکھ 51ہزار جبکہ وزیر اعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65ہزار روپے کردی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار روپے کی گئی تھی۔ اراکین پار لیمنٹ متحد ہو کر جس جذبے سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرتے ہیں کاش، اسی جذبے سے عوام کا بھی خیال کریں؟ ایسے لگتاہے کہ جیسے ہمارے ارباب اقتدار کی بے حسی اور لاپروائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اول روزسے اشرافیہ ملک و قوم کی تقدیر کی مالک بنی بیٹھی ہے۔ انکے ذاتی مفادات قومی مفادات کے بالکل برعکس ہیں یہی وجہ ہے کہ جب تک موجودہ فرسودہ نظام اور اس کے رکھوالوں سے نجات حاصل نہیں کر لی جاتی اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر اور گمراہ کر کے بر سر اقتدار آنے والے درحقیقت پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ہر سال قومی خزانے سے ان کی تنخواہوں اور مراعات پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو عالمی اداروں کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک نے بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان کو بہتر معاشی ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وائے ناکامی! یہ وقت بھی پاکستان پر آنا تھا کہ ہم اپنی پالیسیاں بھی عالمی اداروں سے پوچھ کر بناتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کی بدولت 33فیصد صنعتی یونٹس بند اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔مگر عوام کے نمائندوں کو صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی پڑی ہے۔ ارباب اقتدارکی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ معاشی بدحالی نے قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ ایک سال میں تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں 39.3 فیصد اضافہ تشویشناک ہے، تنخواہ دار طبقے کو پہلے ہی مہنگائی نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حکومت امیروں پر ٹیکس لگانے اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے مسلسل غریب طبقہ اور تنخواہ دار افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ملک کو مسائلستان بنا کر رکھ دیا ہے۔ اشرافیہ سے ٹیکس وصول کیا نہیں جاتا جبکہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔