• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج پاکستان کے سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 46ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ’’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی تھی کہ میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ ’’پنکی باہر کھڑے فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج ملاقات کا دن نہیں ہے، دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے؟‘‘ جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا، میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے، میں نے والدہ کو کہا کہ ’’انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ میری والدہ جب فوجیوں سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ ’’وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچائواور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لائو۔‘‘ میری طبیعت ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز پر ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24 گھنٹے مل گئے۔ بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3اپریل کو بھٹو صاحب کیساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔ اگلے روز ہم جیل پہنچے، میرے والد نے اپنی کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ ’’تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟‘‘ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا، میرے والد جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ آخری ملاقات ہے‘‘؟ جیل سپرنٹنڈنٹ کہتا ہے ’’ہاں۔’’ والد کہتے ہیں ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے ’’کل صبح‘‘ والد کہتے ہیں ’’کتنے بجے؟‘‘ وہ کہتا ہے ’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘ والد کہتے ہیں ’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘ وہ رکتے رکتے جواب دیتا ہے ’’کل رات‘‘ والد کہتے ہیں ’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے ’’نصف گھنٹہ‘‘ حالانکہ جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔ والد کہتے ہیں۔ ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔ ’’یہ میرے احکامات ہیں، غسل اور شیو کرنے کیلئے انتظامات کرلو۔‘‘ میرے والد کہتے ہیں۔ ’’دنیا خوبصورت ہے اور میں اسی حالت میں الوداع کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں سوچنے لگتی ہوں ’’صرف نصف گھنٹہ اس شخص سے ملاقات کیلئے جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ اس وقت مجھے سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی، رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔ والد صاحب وہ چند سگار جو اُن کے وکلاء چھوڑ گئے تھے، میرے حوالے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘ وہ شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں اور اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘ والد کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا، تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں، یہ لوگ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، اگر چاہو تو پاکستان سے باہر چلے جائو اور اگر زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جائو، میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘ میری والدہ کہتی ہیں ’’نہیں نہیں، ہم کبھی نہیں جائیں گے، ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے تو اس عوامی پارٹی جس کی بنیاد آپ نے رکھی ہے، کی رہنمائی کیلئے کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ اتنے میں سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’ملاقات کا وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔ ’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو، میں اپنے بابا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے اور پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں، وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں ’’میں آج شب دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں انہیں دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں ’’الوداع بابا۔‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے۔ ’’ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ جاتے ہوئے پیچھے سے مجھے والد کی آواز سنائی دیتی ہے، میں مڑکر پیچھے دیکھنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی۔ 4اپریل 1979ء کو صبح صادق سے بہت پہلے راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا اور پھر خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ’’ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کردی۔

زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی اور اسے پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنایا، انہوں نے مسلم امہ کے اتحاد کیلئے 1975ء میں لاہور میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں شریک 38 اسلامی ممالک کے سربراہان کے نعرے ’’تیل بطور ہتھیار‘‘ نے مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو مغرب کیلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے لیکن بدنصیبی کہ ہم نے اس عالمی لیڈر کو کھودیا۔ انکی پھانسی کے 45سال بعد 4 مارچ 2024 ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے بھٹو ریفرنس پر اپنے تاریخی فیصلے میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ذوالفقار بھٹو کے کیس کی کارروائی منصفانہ ٹرائل اور انصاف کیلئے درکار ضروری تقاضوں کے مطابق نہیں تھی۔‘‘

تازہ ترین