(گزشتہ سے پیوستہ)
امریکہ میں یو ایس آئی ایس کی میزبانی میں گزرے ہوئے دن شدید ترین مصروفیات کے باوجود کیونکر اچھے گزرے اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ہمارے امریکی میزبانوں نے ’’جبری خواندگی‘‘ سے قطع نظر ہمارے آرام آسائش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہمارا قیام امریکہ کے بہترین ہوٹلوں میں تھا جو مجھے ذاتی طور پر اپنی طبیعت کی سادگی کی وجہ سے اتنا پسند نہیں تھا اور ویسے بھی ہوٹل کا کرایہ اس یومیہ میں سے خود ادا کرنا پڑتا تھا جو امریکی حکومت ہم مہمانوں کو ادا کرتی تھی۔ ایک آسائش یہ بھی تھی ہمیں یہاں بیمار ویمار ہونے میں کوئی تردد نہیں تھا کیونکہ امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہمارے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیاگیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ آپ کی ہیلتھ انشورنس ہے چنانچہ آپ میں سے جو معزز مہمان بیمار ہونا چاہے وہ تکلف سے کام نہ لے اسے صرف ابتدائی پچیس ڈالر ادا کرنا پڑیں گے باقی رقم انشورنس والے ادا کریں گے البتہ آپ کو دو باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا کہ ایک تو یہ کہ آپ اس تاریخ سے بیمار ہوں جس تاریخ سے آپ ہمارے مہمان ہیں کیونکہ سابقہ تاریخوں میں بیمار ہونے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے نیز مہمان نوازی کی تاریخ گزرنے کے بعد بھی بیمار ہونے کی کوشش نہ کریں اگر آپ بیمار ہوں گے تو اپنی گردن پر ہوں گے دوسری ہدایت یہ بھی تھی کہ بیماری کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں زیادہ مہنگی بیماری کا انتخاب چنداں مفید ہوگا کیونکہ انشورنس ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں امریکہ میں لوگوں کی صحتیں بہتر خوراک نہیں بلکہ اس وجہ سےہیںکہ لوگ انتہائی مہنگے علاج کے خوف سے بیمار نہیں ہوتے چنانچہ انشورنس کے کاغذات ہاتھ لگنے کےبعد مجھے ایک نئی فکر لاحق ہوگئی اور وہ یہ کہ اگر خدانخواستہ بیمار ہونے کا موقع نصیب نہ ہوا تو میں اس ہیلتھ انشورنس پالیسی کے فوائد سے محروم رہ جائوں گا اور شومئی قسمت ملاحظہ فرمائیں کہ ایسا ہی ہوا ہمارے ساتھ وی آئی پیز ایسا سلوک یہ بھی کیا گیا تھا کہ ایک تعارفی کارڈ ہمیں دیا گیا جس پر درج تھا کہ حامل رقعہ ہذا امریکی حکومت کا مہمان ہے۔ ایک خصوصی سلوک یہ بھی تھا کہ وطن واپسی کے وقت مقررہ وزن سے تقریباً تیس پائونڈ اضافی سامان لے جانے کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی جس کا کرایہ پین ایم والوں نے ادا کرنا تھا مگر میں اس سہولت سے بھی محروم رہا کیونکہ سفر کے دوران اپنا سامان بڑھانے کی بجائے میں مسلسل کم کرتا رہا چنانچہ میں نے اپنی دو قیمتیں جیکٹیں جو خاصی وزنی تھیں عنایت خسروانہ سے کام لیتے ہوئے دو امریکی کارندوں کو عنایت کردیں یہ جیکٹیں امریکہ ہی سے آئی تھیں چنانچہ میں انہیں امریکہ میں چھوڑ آیا۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
پاکستان سے امریکہ اور امریکہ سے پاکستان تک برٹش ایئرویز اور پین امریکن میں ہماری نشستیں امتیازی کلاسوں میں بک تھیں جہاں دیگر سہولتوں کے علاوہ مفت بادہ نوشی کا وافر مقدار میں انتظام تھا اور ساقی کا اصرا ر تھا کہ نظروں سے پینے کی بجائے براستہ پیالہ وساغر پی جائے مگر افسوس کہ ساقی کی خواہش کا احترام نہ کرسکا چنانچہ
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ ’’دل‘‘ نے بددعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
سو دوران سفر میرا ہاتھ جام تک نہ پہنچ سکا اور یوں میں اس سہولت سے بھی محروم رہا۔امریکہ میں قیام کو دلچسپی بنانے والی دوسری چیز میرے وہ ساتھی تھے جن کا تعلق پندرہ مختلف ممالک سے تھا ان میں سے فلپائن کے ماناروس، اردن کے محمد حلال شاہ، کویت کے احمد قلندر، ٹرکش سائپرس کے حسین اور سوڈان کے ڈاکٹرعراقی سلمان تھے اور ان میں سے حلال شاہ کو چھوڑ کر باقی سب کے سب نوجوان تھے۔ انڈیا کا اینڈرین کیتھولک عیسائی تھا یہ بھی نوجوان تھا اس کا تعلق مدراس سے تھا وہ مجھے ’’الحق‘‘ کہتا تھا۔ موصوف سرزمین امریکہ پر قدم رکھنے کے بعد سے کسی ایسی امریکی خاتون کی تلاش میں تھے جس سے شادی کرکے وہ گرین کارڈ حاصل کرلیں، دورے کے آخری دنوں میں وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے جب میں نے انہیں ایک ایسی امریکی دوشیزہ کے ساتھ دیکھا جس کی عمر کم از کم پچپن ساٹھ برس تھی یہ اتنے پرانے ماڈل کی کار تھی جس کے اسپیئر پارٹس ہی مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھے۔ ظاہر ہے شادی تو فوری طور پر نہیں ہوسکتی تھی اور اس میں زیادہ تاخیر بھی مناسب نہ تھی کیونکہ خاتون کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔ بہرحال اللہ جانے ان کی شادی ہوئی کہ نہیں ہوئی مگر موصوف کا ’’توا‘‘ بہت لگتا رہا۔ ہمارے دورے کو دلچسپ بنانے میں یونانی قبرص کے کپریانی کا بھی بہت ہاتھ تھا یہ بہت دلچسپ شخص تھا مجھے ’’قیس می‘‘ کہتا تھا اس کی انگریزی بہت کمزور تھی ایک دن مجھے کہنے لگا قیس می میں جب صبح اٹھتا ہوں تو تازہ دم ہونے کی وجہ سے میری انگریزی قدرے بہتر ہوتی ہے دوپہر تک اس انگریزی میں لاغری پیدا ہوجاتی ہے اور شام کو یہ بالکل دم توڑ دیتی ہے اور وہ صحیح کہتا تھا چنانچہ شام کے بعد میں اس کے ترجمان کے فرائض انجام دیتا تھا۔فلپائن کا ماناروس ہر وقت کسی نہ کسی بھسوڑی میں ہوتا تھا چنانچہ جب تعلیمی سیشن میں شرکت کیلئے روانگی کی خاطر سب لوگ وین میں بیٹھ چکے ہوتے وہ سب سے آخر میں گھبرایا گھبرایا سا نمودار ہوتا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی کوئی چیز اور برابر سے گزرتے ہوئے کسی شخص کو گراتاہوا وین میں داخل ہوتا۔ اس کی ایک ادا جو سب کو بہت پسند تھی وہ یہ تھی کہ سیشن شروع ہوتے ہی وہ کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا اور سو جاتا بلکہ تھوڑی دیر بعد ہلکے ہلکے خراٹے بھی لینےلگتا۔ ایک بڑی میز جسکے گرد صرف پندرہ بیس لوگ بیٹھے ہوں ان میں سے ایک برسرعام سویا ہوا شخص جتنا نمایاں لگ سکتا تھا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن سونے سے زیادہ مانا روس کا اصل کمال یہ تھا کہ قریباً پینتالیس منٹ کی گہری نیند کے بعد وہ نیم غنودگی کے عالم میں اپنا ہاتھ کھڑا کرتا اور کوئی سوال داغ دیتا۔سوال کرنیوالوں میں کولمبیا کے وکٹر کا بھی کوئی جواب نہیں تھا یہ حلقہ ارباب ذوق کا کوئی پیشہ ور بحثیا لگتا تھا اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی خاصا پڑھا لکھا آدمی تھا اسکی شکل تحسین فراقی سے بہت ملتی تھی مگر جو لوگ تین چار لیکچر سن کر تھک کر چور ہوئے ہوتے اس وقت یہ دست سوال دراز کرتا اور تابڑ توڑ سوال کرکے سیشن کو ایک گھنٹہ مزید طویل کر دیتا۔(جاری ہے)