• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی 2015 میں نافذ کی گئی تھی اور بجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کے باعث گھروں اور دفاتر میں سولر پینل نصب کرکے اپنی ضروریات کی بجلی پیدا کرنے کے رجحان اور سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024ءتک ملک میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی مجموعی تعداد 283000تک پہنچ چکی ہے جو اکتوبر 2024ءمیں 226440 تھی۔ 2021ءمیں نیٹ میٹرنگ صارفین 321 میگا و ا ٹ بجلی پیدا کررہے تھے جو اکتوبر 2024 ءمیں بڑھ کر 3300میگاواٹ اور دسمبر 2024ءمیں 4124میگاواٹ تک جاپہنچی ہے اور آنے والےوقت میں 12000 میگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔

حکومت کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے 80 فیصد صارفین ملک کے 9بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہیں جن میں بیشتر افراد امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے بیشتر صارفین متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے قرضے لے کر اور زیور بیچ کر نہایت مہنگے سولر پینل لگائے تھے تاکہ وہ سولر نیٹ میٹرنگ سے اپنے بجلی کے بلوں میں کمی کرسکیں۔

واپڈا اور کے الیکٹرک نیٹ میٹرنگ صارفین سے 27 روپے فی کلو واٹ بجلی خرید کر پیک آورز میں صارفین سے 60روپے فی یونٹ بشمول ٹیکسز چارج کررہے ہیں۔ نیٹ میٹرنگ صارفین سے 4000 میگاواٹ سے زائدبجلی کی خریداری کے باعث آئی پی پیز سے خریدی جانے والی بجلی کی طلب میں کمی ہوئی لیکن حکومت کو آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی چارجز کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑرہی تھیں جس کا بوجھ حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھاکر عام صارفین پر ڈال دیا جو بجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کا سبب بنا اور حکومت کو سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کیلئے ایک نئی پالیسی لانا پڑی جسکے تحت اب حکومت نئے نیٹ میٹرنگ صارفین سے 27روپے فی یونٹ کے بجائے 10روپے فی یونٹ بجلی خریدے گی اور سرمایہ کاری پر منافع کی مدت بھی 4سال سے بڑھاکر 10سال کردی گئی ہے جسکی 13مارچ 2025 ءکو ای سی سی نے منظوری دی تھی۔

میں نے قومی اسمبلی میں وزیر توانائی اویس لغاری سے نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ حکومتی پالیسیوں کا عدم تسلسل نئی سرمایہ کاری کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے، پہلے حکومت شمسی توانائی کے فروغ کیلئے کوشاں تھی مگر آج سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، حکومت نے 2030ءتک متبادل توانائی کی ضرورت بڑھاکر 50فیصد تک لانے کا اعلان کیا ہے جو نئی سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترامیم کے تناظر میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔

وزیر توانائی نے مجھے یقین دلایا کہ نئی پالیسی کا اطلاق نئے نیٹ میٹرنگ صارفین پر ہوگا اور پرانے نیٹ میٹرنگ صارفین جنہیں نیپرا نے نیٹ میٹرنگ لائسنس دیئے تھے، پر نئے ٹیرف کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں میری ملاقات نیپرا کے چیئرمین وسیم اختر اور میرے دوست ڈی جی نیپرا انور ملک سے اسلام آباد میں ان کے آفس میں ہوئی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ نیٹ میٹرنگ کے پرانے لائسنسز 7سال کیلئے دیئے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر نیٹ میٹرنگ صارفین کی مدت اب ختم ہونے والی ہے لہٰذاان پر نیٹ میٹرنگ کے نئے ٹیرف کا اطلاق ہوگا۔ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی اور مذاکرات کے نتیجے میں حکومت کو تقریباً 1500ارب روپے کی بچت ہوئی ہے جبکہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کا مجموعی بوجھ صرف 159ارب روپے ہے۔ میں نے 24 مارچ کو اسلام آباد میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس میں فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام اور یو بی جی کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں ٹیلی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترامیم پر سخت احتجاج کیا تھا اور اسے غریب صارفین کی محنت کی کمائی سے کی گئی سرمایہ کاری پر ڈاکہ ڈالنے اور شمسی توانائی کے عالمی رجحان کے برخلاف قرار دیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ٹیلی میٹرنگ پالیسی میں ترامیم کو روک کر پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔

نگراں حکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی میں بزنس مینوں سے ملاقات میں عندیہ دیا تھا کہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کے بعد حکومت کو جو بچت ہوگی، اس سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے حال ہی میں صنعتی اور گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں تقریباً 7.5 روپے فی یونٹ کی کمی کا اعلان کیا ہے جس سے گھریلو صارفین کے بجلی کے نرخ 34.37روپے فی یونٹ اور صنعتی صارفین کے بجلی کے نرخ 40.60 روپے (14.5 سینٹ) فی یونٹ ہوجائیں گے جبکہ خطے میں ہمارے مقابلاتی حریف ممالک میں بجلی کے نرخ 26 روپے (8 سے 9 سینٹ) فی یونٹ ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ صنعتی صارفین کے بجلی کے نرخوں میں کمی سے ان کی بجلی کی طلب میں اضافہ ہوگا جو صنعتی ترقی اور ایکسپورٹ میں اضافے کا باعث بنے گا بصورت دیگر غیر مقابلاتی بجلی کے نرخوں کی وجہ سے صنعتی صارفین کی بجلی کی طلب میں کمی ہوگی اور حکومت کو ان آئی پی پیز ،جو ابھی تک کیپسٹی چارجز وصول کررہے ہیں، کی مد میں فکس چارجز ادا کرنے ہوں گے جو حکومت کی حالیہ کاوشوں پر پانی پھیر دے گا۔

تازہ ترین