گزشتہ ایک برس میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جن کے بین الاقوامی اور علاقائی اثرات مستقل طور پر مرتب ہو رہے ہیں۔ امریکہ تو خیر دنیا کے ہر ملک کا ’’ہمسایہ‘‘ہے اور اس میں سیاسی تبدیلی سے تو کوئی بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ اسکے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت سے رخصتی نے نا صرف کہ بنگلہ دیش انڈیا تعلقات کا رخ تبدیل کر دیا ہے بلکہ ساتھ ہی بالخصوص ہمارے خطے کا اسٹریٹجک منظر نامہ بھی اب اور طرح سے تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس تمام صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ سے معاملات کو بہتر کرنے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں اور کس نوعیت کی تیاریاں کی جا رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں آئی سیاسی تبدیلی سے جو معاملات منسلک ہیں جیسے کہ بنگلہ دیش چین تعلقات، اسکے خطے پر اثرات اور پاکستان پر اس سب بدلتی ہوئی کیفیت کے اثرات ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ٹرمپ انتظامیہ معاملات کو ایک اور رنگ سے دیکھ رہی ہے اور جہاں پر اس انداز سے مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے وہیں پر جب نت نئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہوتی ہے کہ ان مواقع کو دریافت کیا جائے اور وقت پر انکے حصول کیلئے چوٹ ماری جائی۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کا دورہ کیا گیا مگر بد قسمتی یہ رہی کہ ان سے وائٹ ہاؤس میں کسی نے ملاقات تک نہ کی۔ اگر ہم اسی دوران پاکستان کی مانند ہی دیگر ممالک کی شخصیات کے امریکی دوروں کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کے علاوہ تمام دیگر ممالک کے افراد وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں کرنے میں کامیاب رہے، یہ ایک بہت انتباہی صورت حال ہے جو کہ کسی بڑے خدشے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں تصور یہ تھا کہ سفارتی امور میں ضروری ہے کہ جو لوگ سفارت کاری کرنے آئیں، انکے اپنے مفادات امریکہ سے وابستہ نہ ہو ں، جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر اہمیت بھی نہیں دی جاتی، ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان کی جانب سے واشنگٹن میں ایسے افراد سفارت کاری کریں جو خالص انداز میں سفارت کاری کریں پھر چاہے مقابلے کا میدان اقوام متحدہ ہو یا ٹرمپ انتظامیہ سے مختلف امور میں مکالمہ، کامیابی دونوں جگہوں پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ورنہ صورت حال اتنی گھمبیر ہو چکی ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہیئرنگ تک کی بات ہو رہی ہے، لوگوں کو اس ہیئرنگ کیلئے مدعو کیا جا رہا ہے مگر میرے جیسے لوگ اس کارروائی میں شرکت سے فی الحال انکار ہی کر رہے ہیں۔ کچھ داخلی سطح پر بھی حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اب جب امریکہ سے کوئی وفد آئیگا اور اسکے متعلق یہ خبریں گردش کریں گی کہ وہ پاکستان کی داخلی سیاست میں اپنی رائے ٹھونسنا چاہ رہا ہے اور ان سے ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کے سربراہ ملاقات کرینگے تو تصور یہ مضبوط ہوگا کہ ملک کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد ہے اور نیز یہ کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال عدم استحکام کی شکار ہے ، ایسی حالت میں معاشی سدھار کے امکانات کو دوبارہ زک پہنچنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ یہ محسوس نہ ہو کہ موجودہ سیاسی نظام حقیقی نہیں ورنہ اس سے ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچ جانے کا امکان بڑھتا ہی چلا جائیگا۔ اس تمام تر صورت حال میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے متحرک کردار ادا کیا ہے اور ان کو ہی آگے بڑھ کر صورت حال کو سنبھالا دینا ہوگا ، امریکی وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو اور معدنی وسائل کو مرکزی نکتہ بنانا معاملہ فہمی کی دلیل ہے۔ اسحاق ڈار کا دورہ بنگلہ دیش بھی جلد ہی متوقع ہے جسکے حوالے سے انڈیا میں ایک بے وجہ پریشانی پیدا ہو رہی ہے ۔ حالانکہ پاکستان کی تو خواہش تھی کہ شیخ حسینہ کے دور حکومت میں بھی پاکستان کے بنگلہ دیش سے معمول کے تعلقات برقرار رہتے مگر انڈیا کی بالا دستی قائم کرنے کی سوچ نے ایسا نہ ہونے دیا ہے اور اب انہی حالات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں انڈین اثر سے گلو خلاصی کی سوچ بہت پروان چڑھ چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب بنگلہ دیشی حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے چین کا دورہ کیا تو انہوں نے جہاں چین کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی وہیں پر اس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ انڈیا کی شمال مشرقی سات ریاستیں صرف مغربی بنگال کی جانب سے ایک تنگ راستے سے انڈیا سے منسلک ہیں اور اس راستے کو چکن نیک کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یونس نے ان سات ریاستوں کو گویا لینڈ لاکڈ قرار دیتے ہوئے اس جانب سے سمندر کا واحد محافظ بنگلہ دیش کو قرار دیا ، نیپال اور بھوٹان کی پن بجلی کی بے پناہ صلاحیت سے چینی سرمایہ کاروں کو فائدہ اٹھانے کی جانب راغب کیا، ڈاکٹر یونس کی اس تقریر نے انڈیا میں بہت ھل چل مچا دی ہے، کیونکہ انڈیا یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ چکن نیک کے اتنے قریب کوئی چینی معاشی سرگرمی ہو اور یہاں تو سونے پر سہاگہ کی کیفیت اس خبر کے بعد بن گئی ہے کہ چین چکن نیک کے پاس ، بنگلہ دیشی شہر لال مونیر ہاٹ میں جو مغربی بنگال کے قریب اسٹریٹجک اہمیت کا علاقہ ہے اپنی ایئر فیلڈ قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور ڈاکٹر یونس کے حالیہ دورہ چین میں اس پر بات بھی ہوئی ہے۔ اروناچل پردیش کے حوالے سے پہلے ہی چین اور انڈیا ایک دوسرے کے خلاف تیاری کر رہے ہیں اور انڈیا اپنا سب سے اہم سرحدی منصوبہ اروناچل فرنٹیئر ہائی وے بنا کر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اگر چکن نیک پر حالات یوں ہی تبدیل ہوئے تو انڈیا کیلئے معاملات مزید پریشان کن ہو سکتے ہیں۔