اگرچہ ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ2028 میں متوقع ہیں، لیکن موجودہ سیاسی تناؤ اور عوامی دباؤ کے پیشِ نظر قبل از وقت انتخابات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ری پبلیکن پیپلز پارٹی (CHP)کے استنبول کے مئیر اکرم امام اولواورترکیہ کی دیگر ڈسٹرکٹ سے بھی CHP کےمئیرز کو مارچ 2025 میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت پہلے حراست میں لیا گیا اور پھر عدلیہ کی جانب سےگرفتار کیے جانے کے بعد ترکیہ بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں حکومت پر سیاسی مخالفین کو دبانے کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس سلسلے میں انقرہ میں حکومت کی جانب سے ری پبلیکن پیپلز پارٹی (CHP)کےچیئرمین کے ٹرسٹی کے طور پر متعین کیے جانے کے اندیشےکی وجہ سےCHPنئے سرے سے اپنے چیئرمین کے انتخاب پر مجبور کردی گئی ۔ اتوار کو پارٹی کے ہنگامی یا پھر غیر معمولی کنونشن میں پارٹی کی قیادت میں ایک بار پھر اعتماد کی تجدید کرتے ہوئے اؤزگور اوزیل (Özgür Özel) کو بھاری اکثریت سےپارٹی چیئرمین منتخب کر لیا گیا ۔
دوبارہ سے پارٹی کا چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اوزگور اوزیل نے کہا کہ تازہ ترین عوامی سروے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ CHP اس وقت ترکیہ کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت بن چکی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر 31مارچ 2024کے بلدیاتی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے CHP کو 47سال بعد پہلی بار ملک گیر سطح پر پہلی پوزیشن دلوائی تھی جبکہ برسراقتدار آق پارٹی کو دو دہائیوں کے بعد دوسری پوزیشن پر جانا پڑا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ CHP نے یہ کامیابی بغیر کسی سیاسی اتحاد یا انتخابی معاہدے کے، خالصتاً اپنی عوامی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے چیئرمین CHP نے نومبر تک نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر یہ انتخابات نومبر میں منعقد ہوتے ہیں تو اکرم امام اولو حزبِ اختلاف کے مضبوط امیدوار ہونگےجبکہ صدر ایردوان( قبل از وقت انتخابات کروانے یا پھر آئین میں دوتہائی اکثریت سےترمیم کروانے کی صورت میں ) اپنی جماعت کے امیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس وقت امام اولو کی مقبولیت میں بڑی سرعت سےاضافہ ہو رہا ہے، جو انتخابات میں سخت مقابلے کی نشاندہی کررہا ہے ۔ موجودہ حالات میں صدر ایردوان کو سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر قبل از وقت انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور حزبِ اختلاف متحد رہتی ہے تو صدر ایردوان اقتدار سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ کو حالیہ برسوں میں اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں مہنگائی اور معاشی بحران شامل ہیں لیکن صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے روایتی اقتصادی پالیسیوں کی جانب قدم بڑھایا ہے اور وہ ان مظاہروں سے قبل تک کافی حد تک ملک میں مہنگائی پر قابو پانے اور افراطِ زر کی شرع کو نیچے لانے میں کامیاب ہو چکےتھے لیکن مظاہروں سےملکی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہونا شرو ع ہوچکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایردوان ہر قسم کے چیلنجز سے نبٹنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں وہ آخری وقت تک بازی پلٹنے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ شام میں حاصل کامیابیوں کی وجہ سے وہ اپنے قومیت پسند بھائیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہیں اور دوسری طرف ملک میں ستر کی دہائی سے جاری دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو پانے کی دہلیز پر ہیں۔ ترکیہ کی دہشت گرد تنظیم PKK جس نے ملک میں کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا تھا کے سرغنہ عبداللہ اوجالان سے بالواسطہ ہی سہی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے اور PKKکو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتے ہوئے کردوں کی جماعت DEMکی حمایت حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حالات میںسیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ایردوان بہت ہی دور اندیش سیاستدان ہیں، ان کو اچھی طرح معلوم ہے ابھی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں بہت وقت باقی ہے ، ان کے مطابق اِس وقت CHP نے مظاہروں کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھاپنی اہمیت کھودئے گا جیسا کہ اس سے قبل گیزی پارک میں ہوا تھا ۔ موجودہ حالات میں بھی صدر ایردوان کے تیور دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب رہیں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ ملک حالات ان کی خواہشات کے مطابق ڈھل چکے ہیں اور انہیں عوام میں پہلے کی طرح مقبولیت حاصل ہے تو وہ اس وقت ہی انتخابات کروانےکو ترجیح دیں گے۔
ایردوان پر اس وقت بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کا کوئی دباو نہیں ہے بلکہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں طاقتور لیڈر پسند ہیں نے ایردوان کو ایک اچھا اور پسندیدہ لیڈر قرار دے رکھا ہے کے ملک ترکیہ پر سب سے کم یعنی صرف دس فیصد ٹیرف ہی نافذ کیا ہے جبکہ یورپ کے دیگر رہنما صدر ایردوان کی مقبولیت، قوت اور مختلف رہنماوں سے ٹکر لینے کی صلاحیت سے بھر پور آگاہ ہیں کے بارے میں کسی قسم کا کوئی بیان دینے سے گریز کررہے ہیں کیونکہ وہ سیکورٹی کے معاملے میں ترکیہ کے محتاج ہیں اسلیے وہ ترکیہ سے ان حالات میں کسی قسم کا کوئی پنگا لینے سے گریز کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔