• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورٹ مارشل کسی فوجی کو بھی سزائے موت دینے کا اختیار کیسے رکھتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو

فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے دوران سماعت کہا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پتا چلا کہ عدالت نے مجھے طلب کیا تھا، جب کورٹ مارشل ٹرائل ہوتا ہے تو اس کا پورا طریقہ کار ہے، ملٹری ٹرائل کیسے ہوتا ہے یہ پورا ریکارڈ عدالت کے پاس ہے، اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تب تک اس پر عمل نہیں ہوتا جب تک اپیل پر فیصلہ نہ ہو جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اپیل کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ کیونکہ یہ بنیادی حق ہے، آئین میں بنیادی حقوق دستیاب ہیں ہمارے سامنے اس وقت وہ مسئلہ ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا خواجہ صاحب دلائل مکمل کریں تو میں مزید بات کروں گا، کلبھوشن کیس میں ایک مسئلہ اور تھا، سیکشن 3  میں فیئر ٹرائل اور وکیل کا حق ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ جب فل کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا تو وہ بھی 18ویں ترمیم کے بعد آیا تھا، عدالت نے ہی 3 آپشنز دیے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ 3 آپشنز موجود ہیں اپیل کا حق ہے یا نہیں یہ بتائیں، اگر کسی کو فیئر ٹرائل کا حق دیتے ہیں اس میں مسئلہ کیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اس وقت ہمارا فوکس اپیل پر نہیں تھا۔

جسٹس مسرت ہلال نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج چھٹی پر چلا جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ٹرائل میں تاخیرہو رہی ہے۔ 

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں، فورسز کے اہلکار بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے عام شہری، عوام اور فوج میں سویلین یا نان سویلین جیسی کوئی مصنوعی تفریق نہیں ڈالی جا سکتی، اگر فوجی اہلکاروں کا ٹرائل ہو سکتا ہے تو باقی شہریوں کا کیوں نہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کمانڈنگ افسر ان کیسز میں حوالگی مانگ سکتا ہے جہاں کسی فوجی نے کوئی جرم کیا ہو، کورٹ مارشل کسی فوجی کو بھی سزائے موت دینے کا اختیار کیسے رکھتا ہے؟ 

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کورٹ مارشل کا سزا دینے کا اختیار تسلیم شدہ ہے۔ 

فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ میں جسٹس حسن اظہر، جسٹس نعیم اختر، جسٹس شاہد بلال، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی شامل ہیں۔

قومی خبریں سے مزید