(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک اور چینی دوست کا کہنا تھا کہ مائو نے قدیم چینی تاریخ کا بہت مطالعہ کر رکھا تھا مگر وہ بالکل بے خبر تھا کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے حتیٰ کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ صرف ایک ملک کے دورے پر گیا اور وہ روس تھا۔ اس دوست کا کہنا تھا کہ ایک عام شخص کی غلطی معاف کی جاسکتی ہے لیکن لیڈر کی غلطیوں کو معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ۔میں نے پوچھا کہ وہ غلطیاں کیا تھیں؟ اس کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی غلطی ثقافتی انقلاب تھی جب ثقافتی انقلاب شروع ہوا اس وقت میری عمر صرف سات سال تھی اور جب یہ اپنے اختتام کو پہنچا اس وقت میں سترہ برس کا تھا چنانچہ میں نے اپنی بلوغت کے پورے دور میں یہی دیکھا کہ ریڈ گارڈ گلے میں سرخ کتاب اور ہاتھوں میں ڈنڈے لئے سڑکوں پر پھرتے تھے جس شخص کو چاہتے تھے اسے انقلاب کا دشمن قرار دے کر اس کی پٹائی شروع کردیتے تھے چنانچہ اس خوفناک دور میں نہ صرف یہ کہ لوگوں کو سرعام ذلیل کیا گیا بلکہ کچھ لوگوں کو جان سے بھی مار دیاگیا۔ میں نے اپنے بچپن سے بلوغت کے زمانے تک یہی کچھ دیکھا۔ اس دور میں مجھ سے میرا آئیڈیل چھین لیا گیا۔
ایک اور چینی دوست نے بتایا کہ مائو کے ساتھی دانشوروں کو اپنا ساتھی نہیں سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ لانگ مارچ سے لے کر باقی تمام مراحل تک قیادت ملک کے کسانوں اور مزدوروں کے ہاتھوں میں رہے گی حالانکہ ملک کی قیادت ان ہاتھوں میں ہونی چاہئے جو جانتے ہوں کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور یوں وہ اس نازک کام کی نزاکتوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ بہرحال لگتا یوں ہے کہ جسمانی کام کرنے والوں اور ذہنی کام کرنے والو ںکے درمیان کہیں نہ کہیں کوئی الجھائو ضرور موجود ہے۔ اگرچہ چین کی موجودہ قیادت نے اس الجھائو کو کم کرنے کیلئے بہت سے مثبت اقدامات کئے ہیں لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر یا انجینئر بعض صورتوں میں جھاڑو پھیرنے والے سے کم تنخواہ پاتا ہے اس وقت ملک میں سب سے خوشحال طبقہ ٹیکسی ڈرائیوروں کا ہے اور ان سے بھی زیادہ خوشحال وہ دکاندار ہیں جنہیں نجی کاروبار کرنے کی اجازت مل گئی ہے، سو پڑھے لکھے افراد کی فرسٹریشن اتنی بے جا بھی نہیں۔ مجھے حیرت ہوئی جب چینی ایئر لائن میں سفر کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ جہاز کے پائلٹ کی تنخواہ ایئر ہوسٹس کی تنخواہ کے برابر ہے اس کا اندازہ مجھے جہاز کی لیڈنگ سے بھی ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ موجودہ (1987ء) چین کے دانشوروں اور نئی نسل کے لوگوں میں جہاں مائو کے خلاف کچھ شکایات پائی جاتی ہیں وہاں ان کے ساتھی چواین لائی ان طبقوں میں بہت مقبول ہیں۔ ویسے ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مائو کی تمام تر ’’غلطیوں‘‘ کے باوجود ابھی تک اس کا احترام بہرحال باقی ہے چنانچہ ایک پاکستانی دوست کے مطابق چینیوں نے مائو کو خدا کے درجے سے ہٹا کر اب اسے صرف ولی اللہ ماننا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات میں یوں کہہ رہا ہوں کہ مزدوروں، کسانوں اور پرانی نسل کے افراد سے ملاقات کا موقع مجھے نہیں ملا۔ جب پروفیسر پریشان خٹک ، پروین شاکر، مہتاب چنا (اب مہتاب راشدی) بشیر بلوچ اور میں شنگھائی میں اندرون شہر کے گلی کوچے دیکھنے گئے تو میں نے ایک ستر سال کے بوڑھے کو روکا اور ایک ترجمان کی مدد سے پوچھا کہ تم پرانے زمانے اور آج کے زمانے میں کیا فرق محسوس کرتے ہو؟۔ اس نے جواب دیا میری صحت ٹھیک نہیں ہے، میں نے ترجمان سے کہا یہ تو میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ اس پر ترجمان نے ایک بار پھر میرا سوال دہرایا اور پھر بتایا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ اور پھر ترجمان نے مسکرا کہا شاید وہ تم سے ڈر گیا ہے وہ تمہیں ریڈ گارڈ سمجھا ہے کیونکہ تم نے انہی کی طرح گردن میں بیگ لٹکایا ہوا ہے۔
میں نے مائو کا چین نہیں دیکھالیکن جو چین میں نے دیکھا ہے وہ اس چین سے بہت مختلف ہے جو میں نے سنا تھا۔ خاندان کا کوئی بزرگ جو بہت روک ٹوک کرتا ہو، ذراسی بات پر معترض ہوتا ہو، جب مر جائے تو اس کے خاندان کی ’’بہو بیٹیاں‘‘ فوراً برقع اتار دیتی ہیں۔ کچھ اس قسم کی صورت حال مائو کے مرنے کے بعد چین میں نظر آتی ہے۔ لوگوں کو بہت آزادیاں اچانک مل گئی ہیںچنانچہ ان کا مکمل استعمال ہر جگہ نظر آتا ہے لوگ اپنی مرضی کے کپڑے پہنتے ہیں، لڑکیاں خوب میک اپ کرتی ہیں اور بازاروں میں اپنے بوائے فرینڈز کے بازوئوں میں جھولتی پھرتی ہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں اور فرینڈ شپ سٹورز میں دنیا کے ہر کونے سے امپورٹ کی گئی تمام آسائشیں ملتی ہیں، مساوات کے تصور میں ایک تبدیلی نظر آتی ہے بلکہ آئندہ دس برسوں میں تبدیلی انتہائی نمایاں صورت میں سامنے آنے کی توقع ہے۔ چین ہمارا دوست نہیں برادر ملک ہے چنانچہ میں اگر اپنے پاکستانی دوست کی فرمائش پوری نہیں کرسکا اور پوری تلاش کے باوجود اگر اس کیلئے مائو کیپ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو مجھے اس کا افسوس نہیں خوشی ہے کہ انقلاب کے فلسفے کے عین مطابق ہمارے چینی بھائی مائو کیپ تک آ کر رک نہیں گئے بلکہ اس سے آگے نکل گئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے سروں پر اگر مائو کی ٹوپی نظر نہیں آئی تو ان سروں پر فرنگی کا ہیٹ بھی کبھی نظر نہیں آئے گا۔ (جاری ہے)