رمضان کے بابرکت مہینے میں امریکہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مسلمانوں نے باقاعدگی سے روزے رکھے اور افطار و تراویح کیلئے مساجد کا رخ کیا، جہاں مقامی مساجد کمیٹیوں اور صاحب ثروت افراد کی طرف سے پورے مہینے ہر روز افطاری میں انواع و اقسام کے کھانوں سے مسلمان فیملیز کی تواضع کی گئی، عید کے روز مساجد اور کھلے میدانوں میں نماز ادا کی گئی اور پھر عید ملن پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو تا حال جاری ہے جبکہ عید سے قبل بڑے شہروں میں چاند رات کا اہتمام کیا گیا، یوں تو پاکستانی امیگرنٹس امریکہ کے ہر سٹی اور ٹاؤنز میں ہیں مگر زیادہ تعداد نیویارک ، نیوجرسی، شکاگو ، الی نائے، میری لینڈ اور ٹیکساس میں رہائش پذیر ہے، امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے دو علاقے بروکلین اور جیکسن ہائٹس گزرے وقتوں میں پاکستانی امریکنز کی اولین منزل اور سرگرمیوں کا مرکز ہوتے تھے، اور پاکستانی قریبی ریاستوں سے وہاں دیسی گراسری ، حلال گوشت کی شاپنگ اور اپنے ملک کے کھانوں کیلئے بڑی تعداد میں آتے تھے مگر اب وہاں کی رونقیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ جیکسن ہائٹس اور بل سائیڈ کوئنز کی دیسی مارکیٹوں پر بنگلہ دیشی قابض ہو چکے ہیں کونی آئی لینڈ بروکلین میں کچھ حد تک پاکستانیوں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، جبکہ بڑی تعداد مضافات میں لانگ آئی لینڈ اور ساؤتھ جرسی وغیرہ نقل مکانی کر چکی ہے۔ جہاں معیار زندگی تعلیم کی سہولتیں اور ٹریفک نیویارک شہر سے قدرے بہتر ہے۔ امریکہ میں پاکستانی امریکنز کی فلاح وبہبود سماجی و سیاسی سرگرمیوں کیلئے متعدد تنظیمیں اور ایسوسی ایشن کام کر رہی ہیں جو قومی دنوں، مذہبی تہواروں اور دوسرے مواقع پر مختلف پریڈز میلے جلسے اور سیمینارز منعقد کرتی ہیں جبکہ موسم بہار کی آمدکے ساتھ برصغیر سے آنے والے فنکار اور گلوکار بھی موسیقی کی محفلوں اور کنسرٹ میں مصروف ہو جاتے ہیں، امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا ‘‘اور ملک بھر میں پھیلے اس کے چیپٹرز بھی امریکہ اور پاکستان میں ڈاکٹروں اور عوام کی بھلائی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے سرگرم ہیں، امسال ایک ہزار سے زائد پاکستانی میڈیکل گریجویٹس امریکہ میں ریذیڈنسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جن کی پلیسمنٹ اور ویزوں کے حصول میں اپنا کے ڈاکٹروں نے پوری طرح معاونت کی ہے، گزشتہ دنوں اپنا تنظیم کا سپرنگ کنونشن اوکلاہوما سٹی میں منعقد ہوا جس میں کثیر تعداد میں ڈاکٹروں نے شرکت کی جبکہ حکومت پاکستان کی نمائندگی سفیر پاکستان رضوان شیخ نے کی، اس موقع پر اپنا کے مرکزی عہدیداران نے اسٹیٹ اسمبلی میں منعقدہ خصوصی تقریب میں شرکت کی جبکہ ریاست کے گورنر کیون سٹیٹ نے بھی سیشن میں شرکت کی اور پاکستانی ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ مہارت اور خدمات کو سراہا۔ پاکستانیوں کی امریکہ مائیگریشن کے ابتدائی برسوں میں زیادہ تر تارکین وطن نیویارک اور شکاگو آ کر آباد ہوئے مگر بتدریج پاکستانیوں کی بڑی تعداد بہتر مواقع کی تلاش میں دوسری ریاستوں میں جا کر آباد ہو گئی۔ اس وقت امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سب سے زیادہ تعداد میں ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم ہے اور ان کی اکثریت آسودہ حال ہے، گرم مرطوب موسم ، سستی رئیل اسٹیٹ اور کاروباری مواقع کی وجہ سے ہیوسٹن پاکستانی نژاد امریکیوں کا پسندیدہ شہر بن گیا ہے جہاں رات گئے تک دیسی ریسٹورنٹس اور کافی شاپس میں لوگوں کا رش کراچی اور لاہور کی یاد تازہ کرتا ہے، کثیر تعداد اور بہتر سماجی مقام کی وجہ سے ہیوسٹن میں مقیم پاکستانی مقامی سیاست میں بھی فعال ہو رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب کوئی پاکستانی نژاد امریکی کانگریس کا الیکشن جیت کر امریکی ایوان نمائندگان میں بیٹھا نظر آئے گا۔ اس وقت ٹیکساس ریاست کی سٹیٹ اسمبلی میں دو پاکستانی نژاد امریکی دوسری دفعہ الیکشن جیت کر آئے ہیں جبکہ نیواڈا، کنکٹیکٹ اور نیوجرسی سے بھی ریاستی اسمبلیوں میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی نمائندگی موجود ہے، آئندہ چند مہینوں میں نیویارک اور نیو جرسی میں ،جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، دو بڑے انتخابی معرکے ہونے جا رہے ہیں، جن میں ریاست نیوجرسی کے گورنر اور نیویارک سٹی کے میئر کی ریس شامل ہے۔نیویارک سٹی کے پانچ بوروز میں رہنے والے پاکستانی، انڈین یا بنگلہ دیشی کمیونٹی کی طرح منظم اور مضبوط تو نہیں لیکن جہاں ان کی آبادی ہے وہاں کافی متحرک ہیں، موجودہ میئر ایرک ایڈمز نے اقلیتوں خصوصاً پاکستانی امریکنز کے ساتھ خصوصی تعلق رکھا اور متعدد پاکستانیوں کو شہری حکومت میں عہدوں پر فائز کیا، میئر ایڈمز جن کے پاس سوبلین ڈالر کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات سے بری ہونے کے بعد دوبارہ میئر نیویارک کا الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ جس کو جیتنے کیلئے ان کو کافی جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ ان کے مدمقابل ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کا مضبوط امیدوار ہو گا، امریکہ ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی دوسری اور تیسری نسل پڑھ لکھ کر ترقی کی منازل تو طے کر رہی ہے۔ مگر اپنی دھرتی کے ساتھ ان کے رشتے کمزور پڑتے جا رہے ہیں اور وہ مقامی رسم و رواج و اصول ضابطے اپنا رہے ہیں۔ تا ہم خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ مذہب سے اپنا رشتہ توڑنے پر تیار نہیں ایک ایسے معاشرے میں جہاں رنگ و نسل جنس اور مذہبی بنیادوں پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہوتا سب لوگ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔ (صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)