ہر سال 17اپریل کو دنیا بھر میں عالمی یوم ہیموفیلیا منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہیموفیلیا اور دیگر خون بہنے کے امراض کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ یہ دن ان افراد کی مشکلات کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو ان بیماریوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان مریضوں کیلئے بہتر تعلیم، شعور اور زندگی بچانے والے علاج تک رسائی کی ضرورت کو اجاگر کرناہے۔ا س سال یہ دن منانے کا موضوع ہے (Women and Girls Bleed too)۔ ہیموفیلیا خواتین اور مردوں میں یکساں پائی جانے والی بیماری ہے لیکن زیادہ تر خواتین میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوپاتی کیونکہ انکی طبی سہولتوں تک رسائی محدود ہے۔ اس سال یوم ہیموفیلیا پر عوامی آگاہی دی جا رہی ہے کہ خواتین بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہیں لہٰذا انکو نظر انداز کرنے بجائے مناسب سہولیات فراہم کی جائیں۔ تاریخی طور پر ہیموفیلیا کو مردوں کی بیماری سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہ ایک ایکس کروموسوم لنکڈ موروثی مرض ہے لیکن خواتین بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہیں خاص طور پر اگر وہ دونوں والدین سے یہ جین حاصل کریں یا کیریئر ہوں۔ ان خواتین کو عموماً کم تشخیص، کم سہولیات اور خاص نوعیت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہےجنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہیموفیلیا ایک پیچیدہ موروثی بیماری ہے جس میں جسم کے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جو زخموں سے خون روکنے کیلئے ضروری ہے۔ یہ بیماری خون جمانے والے ایک یا زیادہ پروٹینز (کلاٹنگ فیکٹرز) کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسکی دو اقسام ہیں ایک معمولی جبکہ دوسری شدید درجے کی بیماری ہے جس میں کسی ظاہری چوٹ کے بغیر بھی خون بہنا شروع ہوسکتا ہے۔اگرچہ معمولی زخم ہیموفیلیا کے مریضوں کیلئے خطرناک نہیں ہوتےلیکن اندرونی خون بہنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پٹھوں اور جوڑوں میں خون بہنے سے مستقل درد، جوڑوں کو نقصان اور حرکت میں دشواری جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات اندرونی خون بہنا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر بروقت علاج نہ ہو۔ خواتین مریضوں کو نہ صرف طبی بلکہ معاشرتی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہوتا ہےجس کی وجہ سے وہ بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ہیموفیلیا کے ساتھ جُڑے براہِ راست طبی اخراجات کے علاوہ سماجی اثرات بھی بہت وسیع ہیں۔ خاندانوں کیلئےعلاج کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک، جیسے پاکستان جہاں مالی حالات بہتر نہ ہونے کے ساتھ ساتھ آگاہی کی بھی کمی ہے۔ ہیموفیلیا کی مؤثر دیکھ بھال کیلئے بروقت تشخیص نہایت ضروری ہے، جدید طبی ٹیسٹ جیسے ایمنیوسینٹیسس (Amniocentesis) اور کورینک ولیس سیمپلنگ (Chorionic villus sampling) سے اس موروثی بیماری کی قبل از پیدائش تشخیص ممکن ہے اور فوری تشخیص، جینیاتی مشورہ اور مناسب علاج سےہی بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ہیموفیلیا کی موجودگی تو زیادہ ہے مگر مناسب طریقے سے اس کا سدباب نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے مسائل اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں۔ اندازاً 10سے 20ہزار افراد پاکستان میں خون بہنے کے امراض میں مبتلا ہیں مگر ان میں سے صرف 10فیصد سے بھی کم افراد کا باقاعدہ علاج ہو رہا ہے کیونکہ انکو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ علاج میں رکاوٹیں کئی جہتوں پر مشتمل ہیں خاص طور پر عوام میں شعور کی کمی، غربت، سماجی مسائل اور نظام صحت کی کمزوری۔ زیادہ تر مریض مہنگے علاج جیسے کلاؤٹنگ فیکٹر ریپلیسمنٹ تھراپی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جسکے نتیجے میں وہ فلاحی اداروں اور غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ مقامی علاج مراکزاور تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہیموفیلیا کے مریضوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں آگاہی مہمات، سستی صحت سہولیات، حکومتی سرپرستی اور کمیونٹی کی شمولیت شامل ہے۔ عالمی یوم ہیموفیلیا ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم ہر فرد کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی صنف، عمر یا سماجی حیثیت سے ہو بروقت تشخیص، علاج اور مکمل نگہداشت تک رسائی فراہم کریں۔ آگاہی سہولیات اور معاون نظام میں موجود خلا کو پُر کر کے ہم ان افراد کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں جو ان امراض سے متاثر ہیں۔ بالخصوص خواتین و لڑکیوں پر توجہ دے کر ہم ایک ایسے جامع اور منصفانہ نظام صحت کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں جو سب کیلئے ہو تاکہ کوئی بھی علاج اور دیکھ بھال سے محروم نہ رہے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہیموفیلیا کے مرض کو نصاب تعلیم میں شامل کرکے اپنا کردار ادا کرے اور سندس فاؤنڈیشن جیسے ادارے جو ہیموفیلیا کے تدارک اور مریضوں کے علاج کیلئے کام کر رہے ہیں ان کی مدد اور رہنمائی کرے۔ سندس فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے ایوارڈز اور میڈلز دیے جائیں تاکہ خدمت کے جذبے کو پروان چڑھایا جا سکے۔ ہیموفیلیا ڈے کی مناسبت سے سربراہان مملک، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی و وفاقی وزرا کو چاہئےکہ ہیموفیلیا کی آگاہی کیلئے خصوصی پیغامات ریکارڈ کروائیں تاکہ عوام میں آگاہی پھیلے۔سندس فاؤنڈیشن پاکستان کے دس بڑے شہروں میں ہیموفیلیا کے مریضوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے جہاں تین ہزار سے زائد مریض رجسٹرڈ ہیں۔ سندس فاؤنڈیشن منو بھائی کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے مریض شہروں میں اس سہولت کی توسیع کر رہی ہے جبکہ تھیسلیمیا اور ہیمو فیلیا کے مریضوں کیلئے خصوصی ہسپتال بھی گلبرگ لاہور میں جلد تعمیر کی جانب گامزن ہے جس کیلئے تمام پاکستانیوں سےمدد درکارہے۔