• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت، کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کی تجارتی جنگ نے متعدد ملکوں کوخطرات و خدشات سے دو چار کر رکھا ہے، پاکستان جیسے ممالک کیلئے چیلنج کی نوعیت زیادہ وسعت کے حامل ہو جاتی ہے۔ جو ملک عام حالات میں بھی مالیاتی اداروں کے تبصروں، تجزیوں اور مشوروں کو خاص اہمیت دینے کی ضرورت سے آگاہ ہو ، اسے عالمی بینک کے اس تبصرے کی معنویت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جس میں پاکستان کے ٹیکس نظام کو ’’انتہائی غیر منصفانہ اورنامناسب‘‘ کہا گیا ہے۔ اسلام آباد میں ’’پائیڈ‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس کے ایک پینل مباحثے کا عنوان تھا ’’پاکستان کا مالیاتی راستہ، شفافیت اور اعتماد کا فروغ‘‘ اس مباحثے میں ورلڈ بینک کے لیڈ کنٹری اکنامسٹ ٹوبیاس ہاک کے اظہار خیال کے بموجب محصولات کے نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام سے قلیل مدتی فائدے تو ظاہر ہو رہے ہیں مگر طویل آمدن کے مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکس ہی وہ ذریعہ ہے جس سے ملکوں کے دفاع، امن و امان، نظم ونسق، روزگار عوامی فلاح و بہود، انصاف کی فراہمی سمیت تمام شعبوں کا انتظام و انصرام چلتا ہے۔ یہ نظام جتنا درست اور منصفانہ ہو، اتنا ہی متعلقہ ملک کے لوگوں کیلئے طمانیت و راحت کا سامان اور ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنتا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں محصولات کے نفاذ اور ان کی وصولی کے بندوبست میں قابل محصول آمدنی، جائیداد، ذرائع و وسائل کے حامل ہر فرد سے ٹیکس کا حصول یقینی بنایا جاتا ہے۔ جو لوگ غربت، افلاس اور محرومی کے شکار ہیں ان کیلئے ’’فوڈ باکس‘‘ یعنی کم قیمت میں خوراک، لباس ضروری اشیا اور زندگی گزارنے کے اسباب کی فراہمی کا انتظام یقینی بنایا جاتا ہے۔ براہ راست ٹیکس کا حصول اچھے انتظام و انصرام کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ بالواسطہ اور بلاواسطہ افراط زر یا مہنگائی کی صورت میں پسے ہوئے طبقوں پر عائدہونے والے ٹیکس کو معاشی ماہرین استحسان کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ جس ملک میں ٹیکس وصولی کا ڈھانچہ طاقتور ترین فرد کوبھی ٹیکس سے چھوٹ کی اجازت نہ دیتا ہو اور غربت کی لکیر کے آس پاس نظرآنے والے طبقات کو زندہ رہنے کی سہولتیں دیتا ہو، اسے منصفانہ محصولاتی نظام کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ وطن عزیز کے ٹیکس نظام کی اس کیفیت سے صرفِ نظر عالمی بینک کے ماہر سمیت کسی مبصر کیلئے بھی ممکن نہیں کہ 24کروڑ کی آبادی میں صرف 50لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتےہیں اور ان کم ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ افراد کی ہے جن کی تنخواہوں سے ٹیکس خود بخود کٹ جاتا ہے جبکہ ملکی ضروریات کیلئے جب بھی اضافی ٹیکس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس کا ہدف یہی پہلے سے محصولاتی بوجھ میں دبا طبقہ ہوتا ہے۔ اس منظر نامے میں ورلڈبینک کے لیڈ کنٹری اکنامسٹ ٹوبیاس ہاک کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر بڑھتا بوجھ صرف اسی صورت میں کم ہوسکتا ہے جب ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور تمام آمدن کو اس میں شامل کیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈیجیٹل نظام کی اہمیت اجاگر کی۔ زرعی آمدن پر صوبائی سطح پر ٹیکس کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جائیداد کے شعبے کو بھی درست طریقے سے رجسٹرڈ کیا اور ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہئے۔ ورلڈبینک کے نمائندے کے بموجب اگر ملک صرف 50لاکھ فائلرز کے ساتھ چلتا رہا تو اس سے کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔ پرائم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر علی سلمان نے نظام میں اس وضاحت کی ضرورت اجاگر کی کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی تعداد (جو اس وقت 85ہے) کم کی جائے۔ جہاں تک ملکی ٹیکس نظام میں اصلاح کی ضرورت کا تعلق ہے، اس باب میں موجودہ حکومت کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں جبکہ ڈیجیٹل نظام کے بروئے کار لائے جانے سے جلد اچھے نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین