• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہائی ہے مرے مولا دہائی ہے۔ 6ماہ تک مائوں سے ان کے جگر گوشے چھینے جاتے رہے، باپوں سے ان کے نور نظر جدا کردیئے گئے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور کسی کے ضمیر میں کوئی ہلکی سی خلش بھی پیدا نہ ہوئی۔ جس طرح شدید ترین لوڈشیڈنگ کے دوران حکمران روشن پنجاب کا اشتہار ٹیلیوژن اسکرینوں پر بڑی مستقل مزاجی سے چلاتے ہیں۔ اسی طرح وہ بدترین بدامنی کے باوجود محفوظ پنجاب۔۔۔جرائم کا خاتمہ۔۔۔ کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ کتنا گلا سڑا نظام ہے کہ والدین غم سے نڈھال ہیں۔ کچھ والدین نے پولیس کی منت سماجت کرکے، کچھ نے ان کی خاطر خدمت کرکے اور کچھ نے عدالتوں سے احکامات حاصل کرکے رپٹ تو درج کروالی مگر کسی پولیس اہلکار یا کسی حکومتی عہدیدار کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان غم کے ماروں کے دکھ کا مداوا تو دور کی بات، ان کا حال احوال ہی پوچھ لے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پنجاب سے 652بچے اغوا یا لاپتہ ہوئے۔ سب سے زیادہ 312بچے لاہور سے اغوا ہوئے بادامی باغ کے ایک تھانے کے علاقے سے 32بچے اس عرصے میں اغوا ہوئے۔ لاہور تو ہمارے حکمرانوں کی راجدھانی ہے۔ اس کے باوجود بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ’’باخبر‘‘ وزیراعلیٰ نے اپنے کارندوں سے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے حلقوں میں لوگوں کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے۔ اگرچہ ان اغوا ہونے والے بچوں میں شاید کوئی ہائی پروفائل بچہ نہ تھا مگر ہر وقت اپنے اقتدار کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والے وزیراعظم اور خادم اعلیٰ کو اتنا تو معلوم ہے کہ امیر غریب کا ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔ تاہم قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے لیا اور صرف دو دنوں میں آئی جی پنجاب کو طلب کرلیاہے۔ اب حکومت کے ایوانوں اور پولیس کے تھانوں میں کھلبلی مچی ہے اور راتوں رات اس طرح کی رپورٹیں تیار کی جارہی ہیں جن ’’رپورٹوں‘‘ کے لئے پولیس خاص شہرت رکھتی ہے۔
والدین کے غم کا اندازہ والدین ہی لگا سکتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں تین ہائی پروفائل بچے بازیاب کرائے گئے۔ حکمرانوں کو ان کے والدین سے تو یقیناً علم ہوا ہوگا کہ بچوں کی اس طرح کی خوفناک جدائی سے والدین کے دلوں پر کیا قیامت گزرتی ہے۔
عیدالفطر کے موقع پر اپنے آبائی شہر کے پروفیسر سبط حسن صاحب کو عید مبارک کا پیغام بھیجا تھا۔ ان کا حسب روایت جواب نہ آیا تو میں نے عید سے اگلے روز انہیں فون کیا تو خلاف توقع ان کے بجائے آئی ایل ایم کالج کے پرنسپل پروفیسر محبوب چوہدری نے فون اٹینڈ کیا۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کو شاید علم نہیں پروفیسر سبط حسن کے گھر تو عید کے روز سے صف ماتم بچھی ہے۔ چاند رات کو سرگودھا کی انتہائی بارونق اور معروف شاہراہ یونیورسٹی روڈ میں جوتوں کی دکان پر ڈاکہ پڑا جہاں ڈاکوئوں نے اس شاپ پر کام کرنے والے سبط حسن کے بھائی کو بے دردی سے قتل کردیا اور تقریباً 5لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ سرگودھا تو آج کل جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بعد میں کچھ مصدقہ ذرائع سے مجھے معلوم ہوا کہ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران سرگودھا میںبہت بڑی بینک ڈکیتیاں بھی ہوئی ہیں۔ 4جون کو سرگودھا کے کچہری بازار میں دن دہاڑے بینک ڈکیتی ہوئی جس میں ڈاکوئوں نے ایک بینک گارڈ کو قتل کیا اور دوسرے گارڈ اور ایک شہری کو زخمی کیا اور 70لاکھ روپے لوٹ کرلے گئے۔ اسی طرح رمضان المبارک کے ہی دنوں میں ڈاکو یونیورسٹی روڈ کے ایک اور بینک کی اے ٹی ایم مشین سے 40لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ تاحال ان ڈکیتیوں کا کوئی سراغ لگانے سے پولیس قاصر ہے۔ انہی ذرائع نے بتایا کہ سرگودھا میں اسٹریٹ کرائم تو بہت عام ہیںاور دن کی روشنی میں بھی لوگ ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ انہی دنوں ایک دس بارہ سال بچہ گھر سے موبائل لے کر باہر نکلا۔ دو موٹر سائیکل سوار آئے انہوں نے کراچی اسٹائل میں بچے سے موبائل بھی چھینا اور جاتے جاتے اسے گولی مار کر ہلاک بھی کرگئے۔ یہی حال تقریباً پنجاب کے ہر بڑے شہر کا ہے۔ فیصل آباد میں بھی جرائم کی بہتات ہے۔ اس وقت جرائم میں ’’محفوظ پنجاب‘‘دارالحکومت لاہور سرفہرست ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران لاتعداد ڈاکوئوں کے علاوہ لاہور سے 3,300 گاڑیاں اور موٹر سائیکل چھینی گئیں اور چوری ہونے والی گاڑیاں ان کے علاوہ ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کےجناب الطاف حسن قریشی کی گاڑی بھی گزشتہ دنوں چوری ہوئی ہے مگر حکمرانوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انہیں اپنے میگا پروجیکٹس کے حساب کتاب سے فرصت ملے تو وہ عوام کے دکھ درد کی طرف کوئی دھیان دیں۔ حکمرانوں کی خوش قسمتی کا اندازہ لگایئے کہ انہیں رانا ثناء اللہ جیسے قانون کے محافظ نصیب ہوئے ہیں جو حکمرانوں کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دیتے ہی۔ اغوا ہونے والے 652بچوں کا بھی رانا ثناء اللہ نے گھر بیٹھے حساب کتاب لگا کر بتادیا ہے کہ سارے بچے سوائے دو درجن کے گھروں کو ہنسی خوش لوٹ آئے ہیں یا پھر پولیس انہیں بازیاب کرالائی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر درجنوں والدین اپنے پیاروں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کیوں کھا رہے ہیں۔ پنجاب سے اغوا ہونے والے بچوں کی رپورٹ کئی انٹیلی جنس اداروں نے مرتب کی ہے اور وزارت داخلہ کو ارسال کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق لاہور سے 312، راولپنڈی سے 62، فیصل آباد سے 27، ملتان سے 25، سرگودھا سے 24بچے اغوا ہوئے یا لاپتہ ہوگئے۔
میں نے محکمہ پولیس کے ایک ’’عالم باعمل‘‘ سے رابطہ کیا۔ ریٹائرڈ پولیس افسر اس شعبے کی نامور اور نیک نام شخصیت ہیں۔ کئی صوبوں میں اہم ترین پوسٹوں پر کام کرچکے ہیں اور نیک نامی کما چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں انسان بستے ہیں وہاں جرائم بھی ہوں گے۔ تاہم جرائم کے حجم کو کم سے کم کرنا اور لوگوں کو تحفظ دینا اور معاشرے کو پرامن بنانا ہر ریاست کی ذمہ داری اور حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی پولیس اصلاحات کے باوجود آج تک پولیس 1861کے استعماری پولیس ایکٹ کی روح کے مطابق کام کررہی ہے۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی استعمار نے عوام کو ڈرانے دھمکانے اور برٹش راج کا مطیع و فرمانبردار بنانے کا ہدف پولیس کو دیا اور آج بھی ہماری حکومتوں کا بھی وہی پرانا ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پولیس کا ہدف نہیں بدلا جاتا اور اسے خدمت عوام کی جدید تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی اور اسے ماڈرن ٹیکنالوجی مہیا نہیں کی جاتی اس وقت تک پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے جوہانسبرگ سائوتھ افریقہ کی مثال دی جہاں وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پندرہ برس قبل یہ شہر جرائم کی آماجگاہ تھا مگر پھر حکومت نے آہنی عزم اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وہاں مقامی امن و امان قائم کردیا۔
خادم اعلیٰ جب کسی غیر ملکی دورے سے واپس آتے ہیں تو فخریہ بتاتے ہیں کہ وہاں پنجاب کی برق رفتار ترقی کی مثال دی جات ہے۔ جناب والا! کیا کبھی کسی غیر ملکی شخصیت نے آپ سے صوبے میں امن و امان ، روزگار، عدل و انصاف، شرح تعلیم اور میڈیکل انشورنس کے بارے میں بھی پوچھا ہے؟دو تین برس قبل بھارت کے شمالی صوبے کے عوام وزیراعلیٰ نتیش کمار پاکستان آئے تھے۔ خادم اعلیٰ نے انہیں گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ پاور پوائنٹ پر انہیں انگریزی بریفنگ دی۔
جب نتیش کمار اسٹیج پر آئے تو وہ معمولی سے پاجاما کرتے میں ملبوس تھے۔ انہوں نے اردو میں خطاب کیا اور بتایا کہ انہوں نے اپنے صوبے میں اس طرح کی بریفنگ پر پابندی لگا رکھی ہے۔ وہ گلیوں اور بازاروں میں بچشم خود امن و امان اور عوام کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تبھی ان کا صوبہ ایک مثالی صوبہ ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب سے ہماری درخواست بھی یہی ہوگی کہ وہ بغیر پروٹوکول کے اپنے شہر کے ان غمزدہ خاندانوں سے ملیں اور حقیقت حال معلوم کریں تب انہیں معلوم ہوگا کہ پنجاب جرائم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ’’محفوظ پنجاب‘‘ صرف اشتہاری مہم سے وجد میں نہیں آسکتا۔


.
تازہ ترین