• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ جن ممالک میں تجارت آگے نہ بڑھ رہی ہو اور بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہو رہی ہو، ان ممالک کا قرضہ بڑھتا ہی چلا جا تا ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کو "نئی عالمی وزارت خزانہ" کہا جاتا ہے اور اس کے قرضے کی قیمت ہر وہ شخص ادا کر رہا ہے جو حقیقی دولت پیدا کرتا ہے یعنی مزدور اور کسان۔ دوسری طرف ہمارا صنعتی شعبہ بجلی اور گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھنے کی وجہ سے علاقائی ممالک سے مسابقت بھی نہیں رکھ پا رہا، ان حالات میں ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ علاقائی تعاون کو ہر قیمت پر آگے بڑھایا جائے۔ ماہرین کا یہ کہناہے کہ اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ تجاری تعلقات بحا ل ہو جائیں تو پاکستان کی برآمدات میں 80فیصد اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ تقریباً 25بلین ڈالرز کے برابر ہو گا۔ حال ہی میں 15جون 2024سے 15نومبر 2024تک نیپال سے چالیس میگا واٹ بجلی بھارتی گرڈ کے ذریعے بنگلہ دیش کو فراہم کی جاتی رہی ہے جو توانائی کے شعبے میں نہ صرف ایک اہم معاہدہ ہے بلکہ علاقائی تعاون کی بھی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے جنوبی ایشیائی گرڈ کے قیام کی تجویز دی ہے، جس میں نیپال اور بھوٹان سے پن بجلی حاصل کر کے فوسل فیولز پر انحصار کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں ہندوستان سے بجلی درآمد کرنے کا معاہدہ تقریباً پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا جس سے آج ہماری صنعتیں مستفید ہو رہی ہوتیں۔ اس کے علاوہ پاکستان پر ہر سال پینتیس سے چالیس لاکھ نئے نوجوانوں کا بوجھ بھی پڑ رہا ہے اور نئی صنعتوں کے فقدان کی وجہ سے انکو کسی صورت میں بھی روزگار مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ آج سارک ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور یہ خطہ اب تک اپنےغریب عوام کو اقتصادی ثمرات پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ آج پاکستان جیولری، سرجیکل اوزار، ایتھائل الکوحل، فارما سیوٹیکلز، الیکٹرونک آلات اور کھیلوں کا سامان دوسرے ممالک کو برآمد کر رہا ہے حالانکہ بھارت میں انکی بہت مانگ ہے اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے پاکستان کیلئے یہ برآمدات بہت سود مند ہوںگی۔ پاکستان کو ہندوستان سے ٹیکنالوجی کے ماہرین یورپ سے آدھی قیمت پر مل سکتے ہیں، دوسری طرف بھارت اور پاکستان دنیا کے دوسرے اور پانچویں سب سے زیادہ کاٹن پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ اگر صرف اسی انڈسٹری میں دنوں ملک آپس میں تعاون کر لیں تو اس خطے کی حالت بدل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی درمیان تجارت بذریعہ دبئی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر خیر پور کا ایک تاجر اپنی خشک کھجوریں دبئی کے راستے بھارت برآمد کرتا ہے جس میں تقریباً 40دن لگ جاتے ہیں جس سے کھجوروں کی کوالٹی پر اثر پڑتا ہے جبکہ واہگہ /اٹاری کے ذریعے بھیجا گیا مال آٹھ دن میں بھارت پہنچ سکتا ہے۔

ورلڈ بینک کی جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان ممکنہ طور پر باہمی تجارتی حجم 67بلین ڈالرز سے زائدہو سکتا ہے لیکن اس وقت یہ محض 23بلین ڈالرز تک محدود ہے۔ ورلڈ بینک کی 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مکمل طور پرنقل وحمل شروع ہو جائے تو اس سے بنگلہ دیش کی قومی آمدنی میں 17فیصد اور بھارت کی آمدنی میں 8فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ 2005سے 2019ء کے درمیان بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت اور نیپال کے درمیان تجارت 6گنا بڑھ چکی تھی اور اس میں مزیدہ اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کیلئے 93فیصد، بھارت کیلئے 50فیصد اور نیپال کیلئے 76فیصد ترقی کے امکانات اس تجارت کے بل بوتے پرپائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیا ل ہے کہ پاکستان اور بھارت کی باہمی تجارت کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک جنوبی ایشیائی آزاد تجارتی علاقے (SAFTA) کے معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد شروع کریں، جو 2004میں طے پایا تھا اور جس کا مقصد پورے خطے کیلئے ایک آزاد تجارتی زون تیار کرنا تھا لیکن اس آزاد تجارتی زون کی راہ میں بنیادی رکاوٹ دونوں اطراف میں "سیاسی عزم کی کمی" ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں معاشی طور پر سب سے کم مربوط ملک ہے۔ اگر چہ حال ہی میںکچھ امید افزا اقدامات کیے گئے ہیں جس میں خاص طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ 15سال بعد تجارتی بحالی سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت ایک ارب ڈالرز سے تجاوز کر گئی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اور پاکستان بھی اپنی انا کو عوام کی بہتری کیلئے پس پشت ڈال دیں۔

آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ بھارت اور چین شدید سرحدی تنازعات کے باوجود 120بلین ڈالرز کی باہمی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ چین کو ہو رہا ہے، دوسری طرف امریکہ اور چین عالمی تسلط کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ٹرمپ کے آنے کے بعد بھی یہ تنائو کم نہیں ہوا لیکن اسکے باوجود امریکہ اور چین ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنرز ہیں۔آج اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی فضا پید ا کیے بغیر تیسری دنیا کا کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ یورپین اقوام نے بھی عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں کے بعد ایک ایسی امن و آتشی کی فضا کو فروغ دیا جس نے انکی سرحدیں ہی ختم کر دیں اور آج یہ ریاستیں نفرت اور جنگ کی دہلیزیں پار کر کے جدید فلاحی ریاست کا نمونہ بن گئی ہیں۔ اسی لیے آج ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کہ وہ کیا وجوہات ہیںکہ سائوتھ ایسٹ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرح ہمارا خطہ علاقائی تعاون سے مستفید کیوں نہیں ہو پا رہا۔

تازہ ترین