• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی کی وارداتیں جاری ہیں اور پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاََ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتیں اس بات کی غماز ہیں کہ افغان سرزمین پر موجود اسلحے کا نہ صرف غلط استعمال ہو رہا ہے بلکہ دہشتگردوں کی سرگرمیاں عالمی امن کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ دہشتگرد گروہ اس اسلحے کا استعمال دنیا بھر میں تخریب کاری کی کارروائیوں کیلئے کرسکتے ہیں، جس سے عالمی سطح پر دہشتگردی کی نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ اس صورحال کو سنجیدگی سے لے اور افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے ایک جامع حکمت عملی تیار کرے۔ عالمی سطح پر اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ جس سے تمام ممالک کو اپنے اپنے مفادات اور عالمی امن کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر نمٹنا ہو گا۔ پاکستان اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، لہٰذا اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور فوج کو دہشتگرد گروپوں کی مالی مدد اور اسلحہ کی سپلائی کے ذرائع بند کرنے کیلئے مزید موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ پاکستان کی سرحدی سیکورٹی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ افغان سرزمین سے آنے والی دہشتگردی کی لہر کو روکا جا سکے۔ اسی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی کوششیں تیز کرنی ہوں گی تاکہ افغانستان میں موجود اسلحہ کی دہشتگردوں تک رسائی کو روکا جا سکے۔ اس بحران کا حل صرف فوجی کارروائیوں اور سیکورٹی اقدامات تک محدود نہیں رہ سکتا۔ عالمی برادری کو افغانستان میں طویل المدت امن کے قیام کیلئے ایک جامع سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس میں طالبان کو شامل کر کے انہیں عالمی برادری کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ افغانستان میں ایک مضبوط حکومت بنائی جا سکے جو دہشتگردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان کا موجودہ بحران عالمی امن کیلئے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ دہشتگردوں کے ہاتھوں میں موجود اسلحہ عالمی سطح پر دہشتگردی کو بڑھا سکتا ہے اور اس کے اثرات عالمی برادری پر پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک کو اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر امن کی فضا کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کی خاطر افہام و تفہیم کے رویوں کو اختیار کیا جائے اور حکومت اور حزب مخالف ملک میں امن و امان کیلئے تمام تر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں کیونکہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا، اس وقت تک دہشتگردی کا خاتمہ اور امن کا قیام محال ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان 2021میں امریکی انخلا کے بعد سے اسلحےکی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں اوریہ ہتھیار القاعدہ، فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگرد گروپوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ طالبان بگرام ایئر بیس جیسے اہم مقامات پر امریکی ہتھیاروں کی تربیت دے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس سے دنیا بھر میں دہشتگردی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ طالبان کی اسلحے تک رسائی اور اس کی فروخت عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے اور اس پر عالمی اداروں کو فوری کارروائی کرنی چاہئے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی نوید سنائی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز سوشل امپیکٹ فنانسنگ کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بجلی کے بلوں میں جولائی یا اس سے قبل مزید کمی کیلئے کام جاری ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ مئی میں اسٹاف لیول معاہدے کا اجرا کریگا۔ ہم نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا مکمل پلان بنا لیا ہے جسے آئی ایم ایف کو بھی دکھایا جائیگا۔ وزیر خزانہ کے بقول آئی ایم ایف کے تمام اہداف پورے کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط اور کلائمیٹ فنانسنگ میں بھی فنڈز ملیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یکم جولائی سے بجٹ حتمی شکل میں نافذ کر دیا جائیگا جسکے بعد بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ یہ حقیقت ہے کہ اتحادی حکومت کو عوام کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے مسائل میں حقیقی ریلیف دینے کے چیلنجز درپیش ہیں جن سے عہدہ برا ٓہو کرہی حکومت اپنی گورننس پر عوام کا اعتماد قائم کر سکتی ہے۔ اس میں بڑا چیلنج یقیناً آئندہ قومی بجٹ کو عوام دوست اور ہر طبقہ زندگی کے لوگوں کیلئے قابل قبول بنانے کا ہے جس کیلئے حکومت کے مالی اور اقتصادی علمی دماغوں کو عرق ریزی کرنا ہو گی۔ اگر وزیر خزانہ کے دعوے کے مطابق بجٹ میں عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا سوچا جا رہا ہے تو یہ الابلا قسم کے مروجہ ٹیکسوں کی شرح کم کرنے اور نئے ٹیکس نہ لگانے سے ہی ممکن ہے جس کا بادی النظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے ماتحت عوام پر ٹیکسوں کے نفاذ پر مجبور ہے۔ اس تناظر میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ ٹیکسوں کے مروجہ نظام میں اصلاحات بروئے کار لائی جائیں اور نئے ٹیکسوں کا رخ پہلے سے مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات کی جانب موڑاجائے ۔ ٹیکس اصلاحات سے ہمیں بتدریج آئی ایم ایف سے بھی مستقل طور پر خلاصی مل سکتی ہے۔ اگر حکومت درپیش چیلنجوں میں تنخواہ دار طبقات سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کیلئے بجٹ کے ذریعے آسانیاں پیدا کرلیتی ہے تو موجودہ معروضی حالات میں یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

تازہ ترین