• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں برائے خزانہ، ریونیو، کامرس، اکنامک افیئرز کے ممبر کی حیثیت سے گزشتہ ایک سال میں آئین اور قوانین میں مختلف ترامیم سے یہ احساس ہوتا ہے کہ IMF کے دباؤ یا دیگر وجوہات کی بناپر کی گئی معاشی ترامیم سرمایہ کاروں پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں اور یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ’’میثاق معیشت‘‘ پر اتفاق کریں اور کسی سیاسی جماعت کی حکومت آنے یا جانے پر کم از کم 10 سال کیلئے اہم معاشی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رہ سکے۔ گزشتہ دنوں ECC نے گھریلو صارفین کی سولر نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں ترامیم پیش کیں جسکے تحت گھریلو صارفین کے شمسی ذرائع سے پیدا کی گئی بجلی خریدنے کے حکومتی نرخ جو پہلے 27روپے فی یونٹ تھے، کم کرکے 10روپے فی یونٹ اور سرمایہ کاری پر منافع کی مدت 2 سال سے بڑھاکر 10 سال کرنیکی تجویز دی گئی۔ اس ترمیم سے وہ تمام گھریلو صارفین متاثر ہوں گے جو نیٹ میٹرنگ کے ذریعے گھروں میں سولر پاور لگانا چاہتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں FPCCI کی پریس کانفرنس میںبتایا کہ بے شمار غریب صارفین نے قرضے لے کر اور اپنے زیورات فروخت کرکے سولر پینل لگائے تھے تاکہ اُنکا ماہانہ بجلی بل قابل برداشت ہوسکے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے قومی اسمبلی میں میرے سوال پر اس بات کی تصدیق کی کہ نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی نئے کنکشنز کیلئے ہوگی جبکہ نیٹ میٹرنگ کیلئے نیپرا کے دیئے گئے لائسنس کی میعاد 7 سال ہے اور زیادہ تر صارفین کی مدت ختم ہونیوالی ہے لہٰذا ان پر نئے قوانین کا اطلاق ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سولر نیٹ میٹرنگ کے نئے قوانین پر عملدرآمد فی الحال روک دیا ہے۔ IPPs معاہدوں پر نظرثانی ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں کے تسلسل پر زور دیتی ہے اور ملکی مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں FPCCI نے اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور انکی ٹیم کو ’’میثاق معیشت‘‘ پر ایک پریزنٹیشن دی۔ اس موقع پر فیڈریشن کی طرف سے میرے علاوہ FPCCI کے صدر عاطف اکرام شیخ، سینیٹر نعمان وزیر خٹک، یو بی جی کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر اور فیڈریشن کے دیگر عہدیداران موجود تھے۔ وزیر خزانہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ معاشی ترقی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا میثاق معیشت پر اتفاق کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے FPCCI کے علاوہ پاکستان بزنس کونسل (PBC) کے 6نکاتی میثاق معیشت اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کی ’’رائٹ سائزنگ کمیٹی‘‘ کی رپورٹ کی حمایت کی۔ FPCCI نے اپنی پریزنٹیشن میں گڈ گورننس کیلئے پاکستان کی سول سروسز میں DMG گروپ میں انرجی، فنانس اور انڈسٹریز پر خصوصی گروپس تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ باقی IPPs کو کیپسٹی چارجز کے بجائے ٹیک اینڈ پے موڈ آف پیمنٹس پر لایا جائے، کوئلے سے چلنے والے IPPs کو امپورٹڈ کوئلے کے بجائے مقامی کوئلے پر منتقل کیا جائے، IPPs سے بجلی مقابلاتی بڈنگ (CTBCM) کے ذریعے خریدی جائے، نیشنل گرڈ پر بجلی کی منتقلی یعنی ویلنگ چارجز زیادہ سے زیادہ 4 روپے فی کلوواٹ مقرر کئے جائیں، بھارت ، ایران اور افغانستان سمیت دیگر علاقائی ممالک سے تجارت کو فروغ دیا جائے، صنعتی صارفین کو یونیفارم ریٹ پر گیس سپلائی کی جائے، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری جلد از جلد کی جائے تاکہ 851ارب روپے سالانہ کے مالی نقصانات کو روکا جاسکے، بجلی سپلائی کرنیوالی کمپنیوں ڈسکوز کی کارکردگی بہتر بناکر 2500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو آئندہ 5 سال میں ختم کیا جائے جو بجلی کے ٹیرف میں اضافے کا سبب ہیں، وزارت خزانہ کو آئندہ 10 سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ٹاسک دیا جائے اور قرضوں کے انتہائی حد کے قانون (FRDLA 2005) پر عملدرآمد کرکے قرضوں کو GDP کے 60فیصد سے کم کیا جائے، پاکستان کے مختلف ممالک سے آزاد تجارتی معاہدوں (FTAs) پر نظرثانی کی جائے تاکہ تجارتی سرپلس پاکستان کے حق میں ہوسکے، پاکستان ایک زرعی اور صنعتی ملک ہے اور ہمیں زراعت کے شعبے کو جدید بیجوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے فروغ دینا ہوگا جو نہ صرف ملک میں فوڈ سیکورٹی فراہم کرسکے بلکہ علاقائی بالخصوص خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ کرکے فوڈ سیکورٹی فراہم کرسکے لہٰذا پاکستان کے ٹیکس نظام میں اصلاحات لاکر زراعت، ریٹیلرز اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کوٹیکس نیٹ میں لایا جائے، اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کی حوصلہ شکنی اور ڈائریکٹ ٹیکسز کی حوصلہ افزائی کی جائے، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں دیوالیہ یعنی بینک کرپسی قوانین متعارف کرائے جائیں اور لمیٹڈ کمپنیوں میں ڈائریکٹرز کی پرسنل گارنٹی ختم کی جائے، ملک میں نئے ڈیمز بنائے جائیں اور معدنیات ، آئی ٹی اور زراعت کو ترجیحی سیکٹرز قرار دیا جائے، پنشن نظام میں اصلاحات کرکے کم از کم پنشن 25000 روپے اور زیادہ سے زیادہ 2 لاکھ روپے مقرر کی جائے اور نئی ملازمتوں کے قوانین میں پنشن کنٹری بیوٹری فنڈز (PCF) کو شامل کیا جائے۔ اس موقع پر میں نے وزیر خزانہ سے وعدہ کیا کہ ’’میثاق معیشت‘‘ کی اِن تجاویز کو ہم حکومت کے بعد ہر سیاسی جماعت کے پاس لیکر جائینگے تاکہ اس سلسلے میں پالیسیوں کے تسلسل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ لائحہ عمل حاصل کیا جاسکے۔

تازہ ترین