• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر دریا صرف پانی کی گزرگاہ کا نام ہے مگر ایسا نہیں دریا تہذیبوں کو جنم بھی دیتے ہیں اور اگر یہ سوکھ جائیں توتہذیب بھی مرجھا جاتی ہے ۔زندگی انسانی ہو، حیاتیاتی ہو یا نباتاتی اس کا انحصار پانی پر ہوتا ہے دریا زندگی، تہذیب اور ثقافت کا منبع ہیں اسی طرح کینالز اور کلچر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ یورپ کے سب سے بڑے دریا وولگا نے روس کو ایک الگ تہذیب و ثقافت سے نوازا ہے ، یورپ کے دوسرے بڑے دریا ڈینوب نے جرمنی اور آسٹریا سمیت کئی ملکوں کو زندگی کے رنگ دے رکھے ہیں۔ برطانیہ کے دریائے ٹیمز کو تو علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں موضوع بنایا، فرانس کے دریائے سین کے بغیر فرانسیسی تہذیب و ثقافت کا ذکر نامکمل ہے۔ ہمارا دریائے سندھ اس خطے میں ان غیر ملکی دریائوں سے بھی بڑھ کر اہمیت کا حامل ہے اس پورے خطے کا نام اگر انڈیا ہے تو وہ بھی دریائے سندھ کے نام سے نکلا ہے، صوبہ سندھ تو ہے ہی سو فیصد اس سے موسوم۔ دریائے سندھ نہ صرف پختونخوا بلکہ پنجاب اور پھر سندھ کو سیراب کرکے زندگی بخشتا ہے۔ میں جوہر آباد کا رہائشی ہوں دریائے جہلم کا پڑوسی ہونے کے باوجود ہمیں پانی دریائے سندھ کا ملتا تھا اس حوالے سے میں نے خود کو ہمیشہ سندھ سپوتر سمجھا ہے ۔

اس خطے کی قدیم ترین تحریری تاریخ کے مطابق جو یورپی سب سے پہلے برصغیر میں آیا وہ ایران کے راستے آج کے بلوچستان میں داخل ہوا ،LEGENDS OF ALEXANDAR کےمطابق دریائے سندھ جیسا بڑااور طاقتور دریا دیکھ کر وہ مبہوت رہ گیا چنانچہ یورپ کے اس پہلے سیاح نے لکھا کہ یہاں کا جو سب سے بڑا دریا ہے اس میں سونا دفن ہے جو ہر وقت پانی کےساتھ بہتا رہتا ہے اس سیاح نے لکھا اس سونے کی حفاظت کے لئے قدآدم گدھ مامور ہیں جو سونا نکالنے والےپر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یورپی سیاح کی یہ تحریر دیومالائی لگتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کے متاثرین کو ان کے نقصان کے ازالے کیلئے دی جانے والی امداد کے انچارج وزیر انجینئر امیر مقام نےمجھے بتایا کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے ان ڈیموں کے متاثرین میں پندرہ سو کے قریب ایک گروپ ہے جو سونار کہلاتا ہے اور وہ کئی پشتوں سے دریائے سندھ سے سونا نکالنے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں، ڈیم کی تعمیر کیلئے ان سونار متاثرین کو بھی امدادی رقم دی جا رہی ہے۔ اسلام آباد میں مجھے ایک ٹھیکے دار ملا جس نے بتایا کہ پختونخوا میں وہ کرینوں اور جدید آلات کے ذریعے سے دریائے سندھ سے سونا نکالتے ہیں اور حکومت سے اس کا م کے لئے باقاعدہ لائسنس لیا جاتا ہے۔

سونے سے بھرے دریائے سندھ میں سے کینالز نکالنے پر آج کل شدید تنازع جاری ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس علاقے کی قدیم ترین تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے میں سات ہزار سال پرانی تہذیب مہرگڑھ میں کئی مورتیاں پیتل سے بنی ہیں گویا اس وقت بھی اس علاقے سے پیتل نکالا جاتا تھا پھر وہاں دو منزلہ گھر تھے، نقش و نگار بنانے کے ماہر موجود تھے۔ اسی مہر گڑھ کی تہذیب کے کئی تجربات کو سندھ کی موہنجودڑو تہذیب نے اپنایا اور پھر ہڑپہ میں اس تہذیب کا پرتو ہے، موہنجو دڑو اور ہڑپہ میں جس ڈھگے کی تصویر نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ دیوہیکل ہے اور اس کی گردن بہت بھاری ہے۔ آج کے دور میں نہ گائے میں وہ نسل موجود ہے اور نہ گدھ کا سائز دیو ہیکل ہے جیساکہ یورپی سیاح نے دیکھا تھا۔ موہنجو دڑو میں PRIEST KING یعنی پروہت بادشاہ کی فگر ملی جسے میں نے اس خطے کے جد کے طور پر سندھو سائیں کا پیارا نام دے رکھا ہے سندھو سائیں کے شانے پر اجرک میں تین پتوں والی ڈھاک بوٹی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ہڑپہ کی تہذیب پر کام کرنے والے ماہرین نے اسی 3 پتوں والی ڈھاک کو نمایاں علامت قرار دیا ہے ۔ موہنجو دڑو میں ایک نوعمر عریاں رقاصہ سمبارا جان کی مورتی بھی ملی ہے دوسری طرف ہڑپہ کے آثارمیں وہ تالاب کثیر تعداد میں ملے ہیں جہاں INDIGO یا نیل کو پراسس کیا جاتا تھا گویا نیل پری اس سویلائزیشن کے تانے بانے میں اہم ترین ہے حال ہی میں نامور مستشرق ولیم ڈارلمپل نے اپنی نئی کتاب دی گولڈن روڈ میں انکشاف کیا ہے کہ ہڑپہ کی تہذیب کے ارد گرد کے خطے کو اس زمانے میں ملوحہ کہا جاتا تھا اور ملوحہ کے لوگوں کی ایک پوری بستی میسوپوٹومیا یعنی عراق اور شام کے علاقے سے دریافت ہوئی ہے اور اس بستی سے نیل لگا ہوا کپڑا بھی ملا ہے گویا ملوحہ کے لوگ کپڑے اور نیل پری کی تجارت میسوپوٹومیا میں کیا کرتے تھے۔

اگر تاریخ، تہذیب کا مثبت حوالہ ہے تو سندھ اور پنجاب کے دھارے بہت ملتے ہیں کینالز یا ڈیم کے حوالے سے اس عاجز کا خیال ہے پنجابی بھائی بڑا ہے اسے سندھو سائیں کی مرضی کے بغیر کوئی ڈیم یا کوئی نہر دریائے سندھ پر نہیں بنانی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح پنجاب نے کالا باغ ڈیم میں بھرپور ذاتی، تجارتی اور مالیاتی مفاد کے باوجود اسےترک کردیا اور یہ طے کرلیا کہ سندھی بلوچی اور پشتون بھائیوں کی مرضی کےبغیر کچھ نہیں ہوگا۔ میری رائے میں اگر پنجاب نے کالا باغ ڈیم جیسا منافع بخش منصوبہ بھائیوں کی خوشی کیلئے چھوڑ دیا تو کینالز یا نہریں تو ڈیم کے مقابلے میں مونگ پھلی کے برابر بھی نہیں۔ وفاق صوبوں میں افہام و تفہیم سے چلتا ہے، ہم المیہ مشرقی پاکستان کی شکل میں وفاق اور مشرقی پاکستان میں تلخیوں اور پھر افسوسناک علیحدگی دیکھ چکے ہیں اسلئے وسائل اور اختیارات کی تقسیم میں 1973ء کے آئین اور اٹھارہویں ترمیم کے مطابق سب فیصلے کئے جائیں۔

یہ درست ہے کہ پچھلے 3 سو سال سے پنجاب اس خطے کے اقتدار کا سب سے بڑا شراکت دار ہے مگر بدلتے حالات اور انصاف کے مدنظر ہمیں چھوٹے صوبوں کے لئے نہ استعمار بننا چاہیے اور نہ ہمیں استحصال میں حصہ داری ڈالنی چاہیے۔ چھوٹے صوبے پنجاب اور فوج کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور پنجاب کا فائدہ اور نقصان مشترکہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں پنجاب میں بھی مقتدرہ کے حامی ہیں اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے بھی۔ پنجابیوں کی کثیر تعداد بلوچستان آپریشن کی مخالف اور سیاسی حل کی حامی تھی مگر جب پنجابیوں کو چن چن کر مارا جانے لگا تو رائے عامہ بدلنے لگی ہے اب پنجاب کی محفلوں میں دہشت گردوں اور پنجابیوں کو مارنے والوں کے خلاف ہمدردی ختم ہو چکی ہے اورکسی بھی آپریشن کی صورت میں پنجاب سے ان کے حق میں آواز نہیں اٹھے گی۔کاش ہم مہر گڑھ، موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے رشتوں اور تاریخی مضبوط دھاگوں کو دیکھ کر لڑنے والے نہیں مل کر رہنے والے بن جائیں!!

تازہ ترین