• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائم مقام چیف جسٹس پاکستان سید منصور علی شاہ ’’عدلیہ میں میرے 44سال‘‘کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :’’یہ تصنیف عدالتی فیصلوں کے وسیع تر سماجی اثرات کی کھوج کرتی ہے قانون کے معاشرے کی تشکیل میں کردار کو سمجھتے ہوئے مصنف انصاف کے اصول میں ہمدردی رحم اور سوجھ بوجھ کی اہمیت پر زور دیتا ہے یہ خود نوشت یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہر مقدمے کے پس منظر میں ایک انسانی کہانی ہوتی ہے اور قانون کو انسانیت اور اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ لاگو کرنا چاہیے۔ جیسے جیسے صفحات پلٹتے ہیں۔ قارئین ایک ایسے جج سے واقفیت حاصل کرتے ہیں جو نہ صرف قانونی نظام کی پیچیدگیوں سے گزرا بلکہ اصلاحات اور ترقی کا بھی وکیل رہا ۔یہ خود نوشت محض ایک عدالتی کیریئر کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ انصاف کی طاقت اور اس اہم کردار کا ثبوت ہے جو ججز افراد کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ میں ادا کرتے ہیں۔ کتاب کی سب سے قابل ستائش بات اس کا اردو میں تحریر کیا جانا ہے ۔ماضی میں کسی جج کی جانب سے اردو میں خود نوشت تحریر کرنے کی نظیر خال خال ہی ملتی ہے‘‘...جہانگیر صدیقی آئی بی اے آڈیٹوریم وکلا، ماہرین قانون، سابق جج ،خواتین و حضرات ریٹائرڈ بیوروکریٹس سے بھرا ہوا ہے ۔آغا رفیق احمد خان نے ملک کے ماضی حال اور مستقبل کو 500 سرخ نشستوں کے ہال میں یکجا کر دیا ہے۔ کتاب کی رونمائی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عدلیہ کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ منیر ملک بول رہے ہیں کتنی وکلاء تحریکیں ان سے موسوم ہیں۔ عابد زبیری نظر ا ٓرہے ہیں۔ بلند قامت بلند خیال غلام شاہ، سید خادم علی شاہ سابق چیف سیکرٹری اسلم سنجرانی ،ممتاز علی شاہ ۔اوراپنے اپنے وقت کی وکلاء تحریکوں بحالی جمہوریت کی جدوجہد کے بہت سے چمکتے دمکتے ستارے بھی موجود ہیں۔ پاکستان اور سندھ کی سیاست کی ایک سینئر قابل قدر شخصیت 92 سالہ سیدغوث علی شاہ جنہوں نے ایک طویل مارشل لا میں چیف منسٹر کا عہدہ غائب رہنے کے بعد اس منصب کو پورے اختیارات کیساتھ بحال کیا۔ سندھ اسمبلی کے سابق دبنگ اسپیکر عبداللہ حسین ہارون، سدا بہار محمد میاں سومرو جنہیں سندھ کا نیک نام گورنر سینٹ کا چیئرمین قائم مقام صدر نگراں وزیراعظم ہونے کے اعزازات حاصل ہیں لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر ایسے جنرل جن کی سویلین بہت قدر کرتے ہیں اور جن کی خود نوشت کا پاکستان بھر میں انتظار ہے، آغا سراج الدین سابق اسپیکر سندھ اسمبلی جناب آصف علی زرداری کے رفیق خاص۔ سابق صوبائی وزیر پیر مظہر الحق جو سیکورٹی کلیئرنس نہ ہونے کے باعث سندھ کے وزیراعلیٰ نہ بن سکے، ممتاز بزنس مین جہانگیر صدیقی اپنے عطیہ کردہ آڈیٹوریم میں اپنے خاص دوست اور رفیق احمد خان کی کتاب کیلئے اپنا قیمتی وقت صرف کر رہے ہیں۔آڈیٹوریم بھی اس کتاب کے شایان شان اور تقریب کی نظامت بھی جو کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر سلیم میمن بہت سلجھے ہوئے باوقار انداز میں کر رہے ہیں ۔عدلیہ کے 44 سال صرف اعلیٰ عدالتوں کے نہیں چھوٹی عدالتوں کے اسرار سے بھی پردہ اٹھا رہی ہے ،آغا صاحب سول جج سے شریعت کورٹ کے چیف جسٹس تک اپنی عدالت کی زندگی میں بھی طوفان برپا کرتے رہے ہیں آج کی تقریب کے ذریعے بھی انہوں نے خاموش عدلیہ کو زبان دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ شریعت کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان کی موجودگی اس تقریب کا وقار بڑھا رہی ہے وہ پاکستان کے ایک عظیم نامور فرزند جسٹس حمود الرحمن کی یاد بھی دلا رہے ہیں کہ وہ انکے فرزند ارجمند ہیں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ جو پاکستان میں شرمندہ اشاعت نہ ہو سکی لیکن دوسرے ملکوں بالخصوص بھارت میں اسکی اشاعت سے پاکستانی اس تاریخی دستاویزات کے کچھ مندرجات سے باخبر ہوئے۔ جنرل معین الدین حیدر اپنی تقریر میں صدر مشرف کی ان میٹنگوں کا ذکر کر رہے ہیں جب حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ سرکاری طور پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ صرف دو باب روکے جا رہے تھے جن میں 1971 کی جنگ میں دوست ممالک کے تعاون کا ذکر تھا مگر پھر بھی یہ رپورٹ سرکاری طور پر شائع نہ ہو سکی اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہو سکا ۔اسٹیج پر جب مقررین کو دعوت دی جا رہی تھی تو میں یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ تین سیڑھیاں کون اپنے طور پر سر کر لیتا ہے کس کو سہارا لینا پڑتا ہے، سید غوث علی شاہ معین الدین حیدر کو سہارا لینا پڑا ،محمد میاں سومرو ،اقبال حمید الرحمن ،جہانگیر صدیقی بغیر سہارا لیے اسٹیج پر پہنچ گئے سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور سابق وزیر دفاع سید غوث علی شاہ کے اس انکشاف پر خوب تالیاں بجیں آغا رفیق احمد خان کی شادی محبت کی شادی تھی اور انہوں نے دلہن کے بزرگوں کو یقین دلایا تھا کہ آغا رفیق احمد خان ایک ذمہ دار شوہر ثابت ہونگے اس کتاب میں سید غوث علی شاہ کے دور میں ہی آغا رفیق کو جو مشکلات پیش آئیں وہ بیان کی گئی ہیں اور یہ سید غوث علی شاہ کے سخت رویے کے باعث ہی پیدا ہوئی تھیں۔ شاہ صاحب نے شگفتہ انداز میں کہا کہ میرے غصے کا تو ذکر ہے لیکن میری محبتوں کا نہیں ہے۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ ایک جج کو دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ دلیر بھی ہونا چاہئے آغا رفیق ان دونوں خوبیوں کے ساتھ معاملہ فہم بھی رہے ہیں۔ جہانگیر صدیقی بھی آغا رفیق کو ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں انہوں نے کہا کہ آغارفیق فیصلہ کرنے میں صرف اور صرف قانون کا خیال رکھتے تھے کسی دباؤ میں نہیں آتے تھے ۔کتابوں کی رونمائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ایک طویل مدت کے بعد کسی کتاب کی اتنی باوقار شایان شان اور ہر مکتب فکر کی طرف سے پذیرائی دیکھنے میں آئی اس تقریب میں انسداد دہشت گردی کے ایک جواں سال جواں عزم جج محمد یا مین بھی ملے جو جنگ اخبار تیسری جماعت سے پڑھ رہے ہیں اور اب بھی باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں ایک عرصے بعد اکرام رانا ایڈووکیٹ ملے جو حفیظ پیرزادہ پھر میاں رضا ربانی کے ساتھ وکالت کرتے رہے، کئی برس بعد ڈاکٹر خالد اشتیاق ایڈووکیٹ سے بھی تجدید ملاقات ہوئی آغا رفیق احمد خان اور جہانگیر صدیقی دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ عدلیہ کا ماضی حال اور مستقبل چند گھنٹے زیر بحث رہا وکلا کی نئی نسل کو سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔

تازہ ترین