بلغاریہ کی یورو زون میں شمولیت کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں ارکانِ اسمبلی گتھم گتھا ہوگئے، عوامی احتجاج بھی شدت اختیار کر گیا۔
بلغاریہ کو یورپی کمیشن اور یورپی مرکزی بینک کی جانب سے لیو کی جگہ یورو کرنسی اپنانے کی منظوری ملنے کے بعد ملک کی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔
پارلیمنٹ میں بھی شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی، مختلف جماعتوں کے ارکان آپس میں الجھ پڑے جبکہ دارالحکومت میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔
پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران حزب اختلاف کی ریوائیول پارٹی نے اسٹیج پر چڑھ کر تقریری کارروائی روکنے کی کوشش کی، پارٹی کے رہنما کو دیگر جماعت کے رکن کو دھکیلتے ہوئے دیکھا گیا، انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان نے ایوان کے فلور پر دھاوا بول دیا اور یورپی یونین کے حامی اراکینِ پارلیمان سے جھڑپ شروع ہو گئی، اس ہنگامہ خیز صورت حال نے جمہوری عمل کو بری طرح متاثر کیا اور ایوان کو وقتی طور پر معطل کرنا پڑا۔
دوسری جانب دارالحکومت صوفیہ میں ہزاروں مظاہرین بلغاریہ کے جھنڈے تھامے اور یورو نوآبادیات نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یورو کرنسی اپنانا ملکی خودمختاری اور معیشت کے لیے خطرہ ہے، ریوائیول پارٹی یورو زون کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہے۔
یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ کنورجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلغاریہ کی معیشت اب یورو زون کے معیار پر پوری اترتی ہے اور اسے 2026ء کے آغاز سے یورو کرنسی اپنانے کی اجازت دی جا رہی ہے، اس فیصلے کے بعد بلغاریہ یورو زون میں شامل ہونے والا 21واں ملک بن جائے گا، جہاں اب تک 20 ممالک کے 34 کروڑ 70 لاکھ افراد یورو استعمال کر رہے ہیں۔
اگرچہ بلغاریہ نے 2007ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے بعد سے یورو اپنانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، لیکن طویل انتظار اور اقتصادی مشکلات کے باعث عوام میں یورو کے بارے میں تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں۔
یورو بیرو میٹر کے ایک حالیہ سروے (مئی 2025) کے مطابق 50 فیصد بلغاری باشندے یورو کرنسی کے حق میں نہیں ہیں، بہت سے شہریوں کا خدشہ ہے کہ یورو اپنانے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔