• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ اتواربیس اپریل کو مسیحی برادری کو ایسٹر تہوار کی مبارکباد دینے کے بعد ٹی وی اسکرین پر مقدس ویٹی کن میں منعقدہ ایسٹر تقریب کی خصوصی نشریات دیکھ رہا تھا جہاں لوگوں کا جم غفیردور دور تک نظر آرہا تھا، مسیحی مذہب کے پیروکار اپنے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب تھے، جس طرف بھی کیمرے کی آنکھ جارہی تھی،وہاں سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ میں یہ سارے مناظر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اصلی حکمران، اصلی لیڈر، اصلی پیشوا وہی ہوتا ہے جو لوگوں کے دلوں پرراج کرتا ہے، جسکی اعلیٰ شخصیت اور بلند کردارکی وجہ سےلوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ جونہی دنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کے ہردلعزیز پوپ فرانسس منظر عام پر آئے، ہم سب نے دیکھا کہ لوگوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جھلک پڑے، وہاں موجود لوگ کے جذبات دیدنی تھے، تاہم کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ روح پرور مناظر دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملیں گے اور یہ ایسٹراٹھاسی سالہ پوپ فرانسس کا آخری ایسٹرثابت ہو گا۔ مسیحی دنیا کے 112ویں پوپ فرانسس کو رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی پیشواکا اعزاز حاصل تھا، وہ ایک محبت کرنے والے، مخلص، امن پسند، بے ضرر، مضبوط اور سادہ مزاج انسان تھے، وہ اپنےجرات مندانہ، دبنگ اور اصول پسندانہ طرزِ زندگی کیلئے جانے جاتے تھے، انہوں نے ہمیشہ صلح، امن، پیار محبت کی بات کی اور اپنی انہی اعلیٰ خصوصیات کی وجہ سے ہر لحاظ سے منفرد دکھائی دیتے تھے۔پوپ فرانسس ظلم، جبر اور بربریت کے سخت خلاف تھے جسکا عملی مظاہرہ انہوں نے حالیہ ایسٹر کے خطاب میں بھی کیا، پوپ نے اپنے خطاب میں امن، محبت اور مذاکرات سے تنازعات کا حل تلاش کرنے پر زور دیا تاکہ مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں جاری جنگ و جدل کے ماحول کو ختم کیا جاسکے۔ پوپ فرانسس عاجزی، انکساری اور سادہ طرز زندگی پر یقین رکھتے تھے، انہوں نے پوپ کے مقدس مقام پر فائز ہوتے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ غریوں، پسماندہ افراد، اور محروموں پر توجہ دیں گے۔پوپ فرانسس نے سماجی انصاف کو اپنے پاپائی دورکی ترجیح بناتے ہوئے اپنی زندگی میں ہر اس مسئلہ پر بات کرنا ضروری سمجھاجو انسانوں کی مشترکہ بھلائی سے جڑا ہو، وہ اقتصادی عدم مساوات اور استحصالی نظام پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے، انہوں نے ایسے تمام طرزعمل کی پُرزور مخالفت کی جو غریبوں کے استحصال اور کمزوروں کو دبانے کا باعث بنے۔ پوپ فرانسس نے کلائمیٹ چینج کوسنگین اخلاقی اور روحانی مسئلہ قرار دیا ، پوپ کے مطابق دنیابھر میں بسنے والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مشترکہ رہائش گاہ زمین کی دیکھ بھال اور حفاظت یقینی بنائیں،پوپ نے جس بہترین انداز میں عصرِ حاضر کے گلوبل ایشوزکو چرچ کی تعلیمات میں شامل کیا، وہ اس سے قبل کبھی نہ دیکھا گیا۔ پوپ فرانسس خدا کی رحمت کے حصول کیلئےدوسروں کو معاف کرنے پر یقین رکھتے تھے، انہوں نےسال 2015کو رحمت کا سال قرار دیتے ہوئے اپنے پیروکاروں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اندر معافی، ہمدردی اور ایک دوسرے کا دُکھ درد سمجھنے کی خصوصیات پیدا کریں۔ پوپ فرانسس کو اس تلخ حقیقت کا اچھے سے ادراک تھا کہ زمانہ قدیم سے انسانوں کےمختلف گروہوں کے مابین مذہبی بنیادوں پرتنازعات کا سلسلہ جاری ہے، آج بھی خدا کی دھرتی کو مذہبی تنازعات سے سنگین خطرات لاحق ہیں، یہی وجہ تھی کہ پوپ فرانسس عالمی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئےہمیشہ سب سے آگے نظر آئے،انہوں نے ہمیشہ اس امر پر زور دیا کہ کسی بھی مذہب کا پیروکار نفرت یا تشدد کو ہوا نہ دےاور تنازعات کے دیرپا حل کیلئے ڈائیلاگ اور باہمی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے۔پوپ نے اپنے دور میں اسلام،ہندو دھرم، یہودیت، بدھ مت اور دیگر عقائدکےمختلف رہنماؤں سے ملاقاتوں میں ہر مذہب کا احترام یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا، پوپ فرانسس نے گزشتہ ایک ہزار سال میں پہلی مرتبہ روم کے کیتھولک چرچ اور روسی آرتھوڈکس چرچ کے مابین روابط استوار کرکے غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے تاریخی قدم اٹھایا، مسلم دنیاکے ساتھ مذہبی مکالمہ کے فروغ کیلئے 2019 میں ابو ظہبی میںگرینڈ امام الازہرشیخ احمد الطیب کے ساتھ عالمی امن اور بھائی چارےکی دستاویزات پر دستخط کرکے دنیا بھر کے امن پسندوں کے دِل جیت لیے۔پوپ فرانسس سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ قطعی طور پر ایک روائتی سخت گیر مذہبی شخصیت نہ تھے بلکہ اپنی گفتگو کے دوران بہترین حسِ مزاح کا استعمال کرتےتھے، انہوں نے گزشتہ سال ویٹی کن کے مقدس مقام پر دنیا بھر کے نمایاں سو سے زائد مزاحیہ فنکاروں کی میزبانی کی، اس موقع پر پوپ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ چالیس برسوں سے روزانہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے میرے رب، مجھے اچھی حسِ مزاح عطا فرما تاکہ میں زندگی میں خوشیاں تلاش کر سکوں اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کر نے کے قابل بن جاؤں۔ پوپ فرانسس انٹرنیٹ کوڈیجیٹل دور میں خدا کا تحفہ قرار دیتے تھے اور سوشل میڈیا کےذمہ دارانہ استعمال پر یقین رکھتے تھے، عالمی و مذہبی امور پر دبنگ، دلیرانہ اور اصولی موقف اختیار کرنے والے پوپ کے ایکس (سابقہ ٹویٹر)اکاؤنٹ کودنیا بھر سے تقریباََ پانچ کروڑلوگوں نے فالوکررکھا ہے۔ پوپ فرانسس پاکستان ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بھی بہت فکرمند رہا کرتے تھے، اگرچہ انہوں نے کئی بار یہاں کے دورے کا عندیہ بھی دیا لیکن وہ اپنی زندگی میں کبھی آ نہیں سکے۔ میری نظر میں پوپ فرانسس دورِ جدید کے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگ مذہبی راہنماء تھے جنہوں نے سادہ طرزِ زندگی اپناتے ہوئے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے دِلوں میں زندہ رہیں گے۔ امید ہے کہ اگلے پوپ بھی انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی امن اور مذہبی ہم آہنگی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔

تازہ ترین