• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز گورنر ہائوس لاہور میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی ۔یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی۔پہلی ملاقات میں ان سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی مگر میں نے ان کے سینے میں دھڑکتا ہوادل دیکھ لیا تھا۔میں کسی کام کے سلسلے میں سندس فائونڈیشن گیا تو پتہ چلا گورنر پنجاب آئے ہوئے ہیں ۔اندر جا کر دیکھا تو گورنر صاحب ایک بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔پتہ چلا تھیلسیمیا کے مریض بچوں کو خون کے عطیہ کیلئے آئے ہوئے ہیں ۔میں نے پہلی بارکوئی ایسا گورنر دیکھا تھا جو خون کا عطیہ دے رہا تھا ۔انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ آج سے تھیسلیمیا کے مریض بچوںکیلئے گورنر ہائوس کے دروازے کھلے ہیں اور اس کے بعد اس اعلان پر عمل درآمد کر کے دکھایا بھی۔

اس ملاقات میں ان سےزیادہ تر گفتگو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مستقبل کے متعلق ہوئی انہوں نے کہا آپ بھی پیپلز پارٹی میں ہوتے تھے ۔میں نے بتایا کہ جب فخر زمان پیپلز کلچرل ونگ کے چیئرمین تھے اس وقت میں میانوالی ضلع کا صدر ہوا کرتا تھا ۔میانوالی میں پیپلز پارٹی پر کئی اچھے وقت آئے ۔ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا پیپلز پارٹی سے بہت گہراتعلق تھا ۔کالاباغ کے نوابین بھی پیپلز پارٹی کا حصہ رہے۔مجھے اپنے لڑکپن کا وہ وقت بھی یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو سینٹرل جیل میانوالی میں پابندِ سلاسل تھے ، محترمہ نصرت بھٹو ان سے ملاقات کیلئے میانوالی آتیں تو ہمارے ہمسائے میں عمران خان کے چچا امان اللہ خان ایڈوو کیٹ کے ہاں قیام کیا کرتی تھیں ۔بھٹو کے وکیل علی حضور نجفی کا تعلق بھی میانوالی سے تھا وہ سپریم کورٹ کے جج علی باقر نجفی کے والد تھے ۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بڑے مسائل ہیں ۔اس موضوع پر برسوں پہلے لندن کے ایک ہوٹل میں یوسف رضا گیلانی سے میری گھنٹوں گفتگو ہوئی تھی۔ندیم افضل چن بھی ہمیشہ اسی کوشش میںرہے ،کئی بار مایوس ہوئے مگر انہوں نے بھی ہمت نہیں ہاری ۔

سردار سلیم حیدر خان کا تعلق اٹک سے ہے،وہ پی پی پی کے راولپنڈی ڈویژن کے صدر بھی رہے۔ اپنےطویل سیاسی سفرمیں انہوں نے مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ضلع کونسل کے رکن کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا ۔ یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔ دوہزار آٹھ میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے ۔انہیں وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار لگایا گیا۔ وزیر مملکت برائے دفاع بھی رہے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی اور انسانی وسائل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔وہ ایک سادہ مزاج اور عوام دوست سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے نظریات کے پختہ حامی ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ ان کی سیاست کا محور عوامی خدمت، تعلیم، نوجوانوں کی ترقی اور اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا حل ہے ۔گورنر پنجاب کی حیثیت سے مختلف سماجی اور تعلیمی منصوبوں میں سرگرم کردار ادا کیا ۔یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور میں خواتین کے لیے انٹرپرینیورشپ سینٹر کا افتتاح کیا تاکہ طالبات کو پیشہ ورانہ مہارتیں فراہم کی جا سکیں۔اوورسیز پاکستانیوں کی سہولت کے لیے گورنر ہاؤس میں "اوورسیز فیسلی ٹیشن ڈیسک" قائم کیا، تاکہ وہ بغیر کسی دقت کے اپنے مسائل کا حل حاصل کر سکیں۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف آگاہی مہمات میں بھی حصہ لیا اور اس کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔پنجاب بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن کی صوبائی کونسل کی سرپرستی کی ،نوجوانوں کی جسمانی، سماجی اور روحانی ترقی پر زور دیا۔وہ روحانیت پر بھی پورا یقین رکھتے ہیں اور نئی نسل کو روحانی اعتبار سے بھی روشن کرنے کے متعلق سوچتے ہیں ۔انہوں نے پنڈی گھیب کو ضلع کا درجہ دینے کی حمایت کی، تاکہ اس علاقے کی تاریخی اہمیت اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے ۔پنجاب بھر میں بہتری کے ساتھ اپنے آبائی شہر فتح جنگ کو بھی کبھی نہیں بھولے ۔رینل کیئر فائونڈ یشن اور سندس فائونڈیشن کے ساتھ مل کر فتح جنگ میں جدید ترین بلڈ بینک بنوا رہے ہیں جہاں گردوں کے مریضوں کےلئے ڈائیلسز کا بندوبست بھی ہوگا ۔ان کی قیصر رفیق اور یاسین خان جیسے انسان دوست لوگوں سے دوستی اس بات کی گواہ ہے کہ گورنر پنجاب کی پہلی ترجیح انسانیت کی خدمت ہے۔

آرٹ سے بھی ان کی گہری دلچسپی ہے انہوں نے گورنر ہاؤس میں ’’پاکستان ہینڈی کرافٹس شاپ‘‘بنوائی ۔ یہ دکان پاکستانی ثقافت اور روایتی فنون کی نمائندگی کرتی ہےگورنر ہاؤس بھی لاہور کی ایک تاریخی عمارت ہے ۔ اب یہ عمارت عوام کے لیے کھولی گئی ہے تاکہ وہ اس کی تاریخی اہمیت اور خوبصورتی کا مشاہدہ کر سکیں۔گورنر ہاؤس کے وسیع و عریض لان اور باغات میں مختلف اقسام کے درخت اور پھول موجود ہیں، جن کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کیلئے اہم ہے بلکہ عوام کو قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔وہاں عوامی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں شہریوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ تقریبات عوامی شمولیت اور شفافیت کو فروغ دینے کیلئے منعقد کی جاتی ہیں، تاکہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ کم ہو۔ ان کے نزدیک گورننس کنٹرول کرنے کا نہیں دیکھ بھال کرنے کا نام ہے ۔وہ اپنے لوگوں کےلئے آئینہ ہیں ، دیوار نہیں ۔وہ انصاف کوگورنر شپ کی روح سمجھتے ہیں ۔ان کے خیال میں وہ عوام کی امانت کے نگہبان ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ ایسے لوگ کم کم ہی گورنر بنائے جاتے ہیں۔

تازہ ترین