قارئین !گزشتہ کم و بیش 6دہائیوں سے عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف نے ہماری معیشت کو جکڑ رکھا ہے جو اپنے قرض کے چند ارب ڈالرز کی وصولی کی خاطر اتنی سخت شرائط عائد کر دیتا ہے کہ انہیں عملی جامہ پہناتے ہوئے عوام کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے۔ اسکے باوجود آئی ایم ایف ہم سے ڈومور کے تقاضے جاری رکھتا ہے۔ اس ادارے کی ڈور جن عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے،پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کمزور کرنے کا ان کا اپنا ایجنڈا ہے جس پر آئی ایم ایف کے ذریعے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب تک ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، اس وقت تک ہماری معیشت کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے نہ ہم ایک خوددار اور خودمختار قوم کے طور پر اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کا یہ کہنا درست ہے کہ آئی ایم ایف سے خلاصی کیلئے ہمیں اپنے محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ تاہم حکومتی گورننس کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ صاحب اختیار و اقتدار اور مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات ہی سب سے زیادہ ٹیکس چوری اور ٹیکس نادہندگی میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے طبقات بھی خود پر ٹیکس لاگو ہونے دیتے ہیں نہ واجب الادا ٹیکس خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا کلچر انہوں نے اپنایا ہے۔ اس تناظر میں پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ،جو پی ٹی آئی کے دور میں بھی اس منصب جلیلہ پر فائز رہے، کی بجٹ تقریر کے یہ الفاظ ضرب المثل بن چکے ہیں کہ ملک کے منتخب ایوانوں میں بیٹھے 1200ممبران میں سے 850 ممبرز اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس کی مد میں ایک دھیلہ بھی قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ اگر صاحب اقتدار و اختیار طبقات ہی ٹیکس چوری میں مبتلا ہوں تو عام عوام سے رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنے کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اسکے باوجود عام تنخواہ دار مزدور طبقات ہی اپنے ذمہ واجب الادا ہر قسم کے ٹیکسز ادا کرتے اور اسکے باوجود ریاست کے فریضے میں آنے والی اپنی سہولتوں اور ضروریات سے محروم رہتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کھربوں کے ٹیکس مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں، جنکے فوری فیصلہ کی ضرورت ہے۔ ان میں بلاشک و شبہ زیادہ تر مقدمات انہی حکمران اشرافیہ اور دوسرے پروفیشنل طبقات بشمول تاجروں، صنعتکاروں کے دائر کردہ ہیں جو ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہ بادی النظر میں حکومتی گورننس اور متعلقہ انتظامی مشینری کی کمزوری ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی بروئے کار لانے سے دانستہ یا کسی مصلحت کے تحت گریز کرتی ہے جبکہ تنخواہ دار طبقات کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کی جبراً کٹوتی کی جاتی ہے۔ یوٹیلیٹی بلوں میں لاگو کئے گئے مختلف قسم کے ٹیکس بھی تو عام عوام سے جبراً ہی وصول کئے جاتے ہیں اور انہیں متعلقہ سہولت بھی بمشکل ہی فراہم کی جاتی ہے جبکہ حکومتی اقدامات سے اٹھنے والے مہنگائی کے سونامیوں کی زد میں بھی عام عوام ہی آتے ہیں۔
اس صورتحال میں فطری طور پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتے ہیں کہ 1951 سے اب تک ملک کی ہر حکومت نے جو قرضے آئی ایم ایف سے حاصل کئے ہیں، ان میں سے کتنی رقم ملک اور عوام کی بہتری اور فلاح پر خرچ ہوئی ہے۔ کتنی ترقیاتی منصوبوں پر لگی اور کتنی رقم صاحب اختیار طبقات کی جیبوں میں گئی۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے خلاصی پانے اور قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے نام پر اربوں ڈالر کی جو امداد چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے لی گئی،کیا وہ امداد اور بیل آئوٹ پیکیج اس مقصد کے تحت ہی بروئے کار لائے گئے؟ حکومت کی جانب سے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کا کریڈٹ تو شدومد سے لیا جاتا ہے مگر حکومت کے اعلان کردہ ریلیف پیکیجز سے کیا عوام حقیقی معنوں میں مستفید بھی ہوئے ہیں؟ اس حوالے سے اعلانات،دعوئوں اور حقائق کا ضرور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ بے شک ٹیکس سسٹم میں ہمہ وقت اصلاحات کی ضرورت ہے مگر ان اصلاحات کا رخ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے مزید فائدے کی جانب ہوگا تو اس سے عوام میں مزید بدگمانیاں پیدا ہونگی ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر کینالز (نہروں) کا منصوبہ واپس نہ لیا گیا تو پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس نہری منصوبے کو سیاسی مسئلہ بنا لیا ہے، حالانکہ یہ منصوبہ اسی اتحادی حکومت کا ہے جس میں پیپلز پارٹی شامل ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نہ صرف حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے رہے ہیں بلکہ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ6میں سے2نہروں کی منظوری ’’قیدی نمبر 420‘‘ نے دی تھی۔ اگر ان2 نہروں کی منظوری قومی مفادات کے خلاف ہے تو ان پر نظرثانی کرلیں، لیکن باقی 4 نہریں جو موجودہ اتحادی حکومت نے منظور کی ہیں، ان پر مخالفت کی بنیاد کیا ہے؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری، شروع میں ان نہری منصوبوں کی حمایت کرتے رہے، لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وہ ان کی مخالفت کرتے دکھائی دیئے۔ سندھ میں جیسے ہی سیاسی بنیادوں پر ان نہروں کے خلاف آواز بلند ہوئی، پیپلز پارٹی نے بھی خود کو اس بیانیے کا حصہ بنا لیا۔ پیپلز پارٹی جو حکومت کی اتحادی جماعت ہے، اس وقت حکومت کو تقویت دینے کے بجائے اسے دبائو میں لاتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے ماضی میں کالا باغ ڈیم جیسے اہم منصوبے کی شدید مخالفت کی اور یوں وہ منصوبہ کبھی مکمل نہ ہو سکا۔ اب پیپلز پارٹی نئی نہروں کی مخالفت کر کے ایک اور ایسا ہی متنازع مسئلہ کھڑا کرنا چاہتی ہے۔