بچپن سے ہم سنتے آئے ہیں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے ۔ ٹائیگر کمتر نہیں ۔ شیر، ٹائیگر، جیگوار یہ سبBig Catsکہلاتی ہیں ۔ ایک دوسرے سے مختلف مگر ایک دوسرے سے مشابہہ۔ شیر اور ٹائیگر میں وقتی اشتعال ایک الگ چیز ہے مگر وہ منصوبہ بندی کر کے دوسری صنف کو کرـہ ارض سے مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے ۔ایک منصوبہ بنا کے اپنے حریفوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی مکمل صلاحیت صرف اور صرف انسان میں پائی جاتی ہے ۔
ہمارے بچپن میں مدتوں ہمیں ایک غلط شے پڑھائی گئی : سیارہ حرکت کرتاہے اور ستارہ ساکن ہے ۔ آج سب جانتے ہیں کہ ستارہ اپنے سیاروں سمیت نہ صرف کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتاہے بلکہ خود کہکشاں بھی اپنے ستاروں اورسیاروں سمیت حرکت میں ہے ’’چاند اور سورج کو اسی (اللہ ) نے مسخر کر رکھا ہے ۔ ہر کوئی وقتِ مقرر تک چلتا چلا جا رہا ہے‘‘سورۃ فاطرآیت 13۔
اسی طرح یہ غلط تاثر ہمارے ذہنوں میں نقش ہے کہ انسان صرف ہم ہی تھے ۔ ہمارے علاوہ اور کوئی انسان کبھی اس دنیا میں نہیں گزرا ۔ آج ٹھوس شواہد اور ناقابل تردید ثبوتوں پہ مشتمل سائنسی علم یہ بتاتا ہےکہ پچھلے ساٹھ ستر لاکھ سال میں بہت سے انسان اس زمین پہ زندگی گزارتے رہے ۔ وہ ہم سے مختلف ایک الگ اسپیشیز تھے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ گوریلا اور چمپنزی ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے کہ شیر ، ٹائیگر اور جیگوار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ہیں تینوں ہی بڑی بلیاں (Big Cats)۔ اسی طرح جیسے گھوڑے اور گدھے الگ اسپیشیز ہیں ۔
نک لونگرچ یونیورسٹی آف بیتھ برطانیہ میںارتقائی علوم پر سینئر لیکچرر ہیں ۔ 2019ء میں انہوں نے "Humans" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ۔ دل تھام کے سنیے ، وہ کہتے ہیں کہ جب ہم انسان اس دنیا میں پیدا ہوئے یعنی آج سے تین لاکھ سال پہلے تو اس کرہ ارض پہ 9مختلف قسم کے انسان آباد تھے ۔ نینڈرتھل یورپ میں آباد تھے ۔ نہایت جفا کش اور یورپ کی سردی برداشت کرنے کے قابل۔ ان کا سر بھی موجودہ انسان کے سر سے بڑا تھا۔ یہ لاکھوں برس یورپ میں زندہ رہے ۔
ایک اسپیشیز کا نام Denisovansتھا۔ یہ ایشیا میں آباد تھے ۔ قدیم ہومواریکٹس انڈونیشیا میں آباد تھے ۔ Homo Rhodesiensisافریقہ میں آباد تھے ۔ جنوبی افریقہ میں چھوٹے دماغ والے Homo Nalediقیام پذیر تھے ۔ Homo Luzonensisفلپائن میں اپنی زندگیاں بسر کر رہے تھے ۔ Homo Floresiensisانڈونیشیا میں قیام پذیر تھے اورپراسرار Red Deer Cave Peopleچین میں قیام پذیر تھے ۔
تین لاکھ سال قبل ہومو سیپین یعنی ہم انسان اس دنیا میں ظہور پذیر ہوئے ۔ آج سے دس ہزار سال پہلے یہ سب دو ٹانگوں والی مخلوقات اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے مٹ چکی تھیں ۔ دس ہزار سال بھی نہیں ،ہمارے علاوہ آخری انسان جو کرـہ ارض پہ آباد تھا اس کا نام نینڈرتھل تھا۔ وہ قریب تیئس ہزار سال قبل اپنے انجام کو پہنچا۔ شاید اس لیے کہ اس کا واسطہ ہمارے اجداد سے آپڑا تھا ۔
اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں کہ یہ ہمارے ہی اجداد تھے ، جنہوں نے ان 9دو ٹانگوں والی مخلوقات کو صفحہ ء ہستی سے مٹا ڈالا ۔ اس کے باوجود ذہن بار بار اسی طرف جاتاہے ۔ جیسے یورپی انسان جب بہتر جنگی اوزار سے لیس ہو کر امریکہ پہنچا تو ریڈ انڈینز کا اس نے صفایا کردیا۔ یہی کچھ آسٹریلیا میں ہوا۔ یہی سب کچھ آج فلسطین میں ہو رہا ہے ۔ اس دنیا کی تاریخ میں انسان کے علاوہ اور کوئی اسپیشیز ایسی نہیں کہ جس نے جنگلاٹ کاٹنے اور کرـہ ء ارض کا درجہ حرارت بڑھا کر بے شمار اسپیشیز کو صفحہ ہستی سے مٹاڈالا ہو ۔
اب ان میں وہ انسان کب ظہور پذیر ہوا ، جس پہ شریعت اتری ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ آدمؑ اسی وقت اس دنیا میں اترے ہوں گے ، جب نینڈرتھلز ختم ہو چکے ہوں گے یعنی آج سے تیئس ہزار سال قبل ۔ پروفیسر رفیق کے مطابق آدم ؑ کو اتارنے سے قبل آئس ایج میں سب کا خاتمہ کر دیا گیا تھا ۔بہر حال جو کچھ بھی پیش آیا ، آج سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ صرف سیپین زندہ ہیں ۔
نینڈرتھلز اس حد تک تہذیب یافتہ تھے کہ وہ لباس پہنتے تھے ۔ ہومو اریکٹس ، نینڈرتھلز اور شاید ہومو نیلیڈی بھی آگ استعمال کرنا جانتے تھے ۔ انڈونیشیا کے جزیرے Floresمیں زندگی بسر کرنے والے Homo Floresiensisساڑھے تین فٹ قدوقامت کے مالک اور بونے دکھتے تھے ۔ یہ پچاس ہزار سال قبل اپنے انجام سے دوچار ہوئے ۔
یہ سب دوٹانگوں والی اسپیشیز اس قابل تھیں کہ اس دنیا میں خدا کی نائب بن سکتی تھیں ۔ ان سب میں سے انتخاب ہوا ہمارا یعنی سیپینز کا ۔ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ اس دنیا کی سیر کرو اور دیکھو کہ تم سےپہلے کون کون سے لوگ اس دنیا میں آباد ہوئے ، جنہیں ہم نے ختم کر دیا تو اشارہ صرف عاد و ثمود کی طرف نہیں ۔
ڈی این اے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے خون میں اِن مٹ چکے انسانوں کا خون بھی شامل ہے ۔ جن لوگوں کو یہ بات عجیب لگے، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے اندر ریپٹائلز، میملزاور پرائمیٹس کا خون بھی شامل ہے ۔ اس دنیا میں زندگی کا آغاز ایک واحد خلیے سے ہوا تھا ۔ اس کے بعد ارتقا میں مختلف اسپیشیز ایک دوسرے سے الگ ہوتی چلی گئیں ۔ آج بھی انسان اولاد اسی طرح پیدا کرتاہے ، جس طرح ریپٹائلز اور میملز پیدا کر تے ہیں ۔ خون، دل ، جگر ، گردے ، پھیپھڑے،سب کچھ وہی ہے ۔میڈیکل سائنس کے طلبہ انسانی جسم کو سمجھنے کے لیے مینڈک کا جسم چیرتے ہیں ۔
اور یہ جو قرآن میں انتباہ ہے کہ ہو سکتاہے کہ تمہیں ختم کر دیا جائے اور تمہاری جگہ نئے لوگو ںکے سر پہ اللہ اپنا ہاتھ رکھ لے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ سیپینز کو ختم کرکے خدا ایک نئی اسپیشیز کو وجود میں لے آئے ۔ نینڈرتھلز بھی تو یہی سمجھتے تھے کہ ہم ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ کیا خیال ہے ؟ کوئی ہمیشہ نہ رہے گا۔ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ،بزرگی اور عظمت والا۔