کچھ برس پہلے بھی تھرپارکر کے مور ایک ساتھ مرنے لگے تو انتظار حسین نے زور دار کالم بھی لکھے اور کچھ افسانے بھی ۔میں نے تب ان سے کہا کہ ’کراچی والوں‘ کو موروں سے اتنی محبت نہیں جتنی بھٹو فیملی پر غصہ ہے۔ انتظار حسین کہا کرتے تھے کہ سارے جنگل اور صحرا موروں سے ہی سجتے ہیں اس، کے رقص سے زیادہ خوبصورت کوئی شے نہیں۔
اب پھر خبریں آ رہی ہیں اور ماہروں کے روپ میں کئی لوگ باتیں کر رہے ہیں اگر حساس قسم کے مور یہ سنیں تو وہ ویسے تڑپ کے مر جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں سندھ سے حق بہاوالحق کہتے بہت سے عقیدت مند ننگے پیر ملتان آتے تھے ایک دو شرارتی انہیں چھیڑتے بہاوالحق کے چور وہ ایک ساتھ کہتے چور ناہیں سئیں بہاوالحق کے مور ! ممکن ہے کہ سندھ میں کچھ لوگوں نے چاہا ہو کہ شیخ کی مقدس ہڈیاں سندھ میں لے جائیں مگر انہیں ڈرایا گیا ہو کہ بہاوالحق کے مزار کو کچھ ہوا تو ملتان اور سندھ میں زلزلہ آ جائے۔پھر یہ کئی برس بعد میںنے نوری جام تماچی کے قصے میں پڑھا ’اے مور تو مر جائےتو نے میرے جام کو اداس، کر دیا۔ جواب میں مور اسے کہتا ہے کہ اس رت میں میں اگر نہ بولوں گا تو میرا دل پھٹ جائے گا‘۔ سندھ کی لوک کہانیوں کو شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست اور خواجہ فرید نےخوبصورت تمثیلوں سے سجا رکھا ہے۔ ایک مقبول بیت میں کہا گیا ہے پیٹ زمین کا اچھا جس میں ہر شے سما جاتی ہے، جھڑ (بادل) برسات کا اچھا جس کی وجہ سے سب سانس لیتے ہیں، پھول پھٹی (کپاس) کا جس سے تمام مخلوق کا تن ڈھکتا ہے۔
اب بات چلی ہے تو سوہنی مہینوال کے قصے میں ایک عجیب نکتہ ہے کہ برسوں بعد سوہنی نے دیکھا کہ مہینوال کی آنکھ میں ایک عیب ہے تب مہینوال نے کہا سوہنی جب تک تم نے یہ عیب نہیں دیکھا تھا تم رات کے وقت بپھرے ہوئے دریا کو بھی گھڑے سے پار کر لیتی تھی اب مشکل ہو گا تمہارے لئے اور اس بد فالے کی بات پوری ہوئی۔بہرطور کہا جاتا ہے قدرتی تبدیلیاں بھی سبب ہوں گی کچھ درخت کاٹے گئے ہوں گے کوئی متعدی مرض ہو گا اور شاید کسی مور نے کہا ہو کہ اگر اپنی مرضی کی بولی سننی ہو تو شاید میرا دل پھٹ جائے پر نوری جام تماچی کے قصے میں جام بلوچستان کا ہے؟