قارئین کرام ! تیز ترقی تو نہیں البتہ اس کے بھرپور پوٹینشل کا حامل برصغیر اک بار پھر جنگ کے گھٹا ٹو پ بادلوں کی لپیٹ میں ہے ۔تاریخ و حال کے اس شہرہ آفاق خطے میں یہ کوئی پہلی یا چونکا دینے والی خبر یا صورت نہیں پارٹیشن آف انڈیا فالوئنگ قیام پاکستان تادم ہر دو ایٹمی طاقتوں کی آٹھ عشروں کی بنتی اور مختصر جدید تاریخ کا تو آغاز ہی جنت بے نظیر کشمیر پر صریحاً ناجائز بھارتی قبضے 1947ء اور جواباً اسے جزواً موجودہ آزاد کشمیر کو پاکستانی مشترکہ ملٹری لیول لشکر کشی اور ملٹری اسٹرائیک سے واگزار کرانے سے ہوا ہماری ایڈوانسمنٹ تو بھارتی فضائیہ سے سرینگر میں فوجی دستے پہنچانے کے باوجود جاری تھی لیکن وزیر اعظم پنڈت نہرو کے عالم گھبراہٹ میں اقوام متحدہ سے رجوع کرنےپر پاکستان نے 17جولائی 1948ء کو سیکورٹی کونسل کی سیزفائر کو تسلیم کرتے جاری مشترکہ ملٹری،سول ایڈوانس مینٹ روک دی 27جولائی سے اپیل پر باقاعدہ منظم عملدرآمد شروع ہو گیا۔ واضح رہے یہ وہ وقت تھا جب بھارت سے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کے پاکستان پہنچنے پر ریلیف آپریشنز اور آبادکاری کی چیلنجنگ سرگرمیاں جاری تھیں پاکستانی فوج کا پہلا انگریز کمانڈرانچیف بھارتی قبضے کو روکنے کے لئے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے احکام کی حکم عدولی کر رہا تھا جس پر پاکستانی فوج نے جو ابھی بطور نئی فوج کے طور خود کو منظم ہی کر رہی تھی کو وزیر ستان کے قبائلی لشکر کا نتیجہ خیز تعاون ملا یہ انگریز کمانڈر کے ملٹری اسٹرائیک سے پہلوتہی کرنے پر پاکستانی فوج کے ساتھ شامل ہوگیا تھا یہ آزادی کشمیر کے ملٹری آپریشن کا معاون بن کر تیزی سے کشمیر کے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوتا جا رہا تھا کہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ادارے نے جنگ بندی کی اپیل کردی یہ وہ وقت تھا جب اقوام متحدہ کا احترام اور اعتراف پوری دنیا میں بہت بلند درجے پر قائم ہوا تھا سو پاکستان نے اپنے ملٹری آپریشن کی تیزی سے ہوتی کامیابی کے باوجود سیکورٹی کونسل کی پہلی امن اپیل کو تسلیم کرتے یقینی ہوتی فتح کو روک دیا اور یوں ریاست پاکستان تنازع کے پرامن حل کی عالمی کوشش کے حل میں اپنے مکمل تعاون کے ساتھ شریک ہوئی تھی اب نئی نسل اور پوری دنیا پر واضح کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ کیسے پاکستان کو امن کے عالمی ادارے میں شامل ہوتے ہی اس کے احترام اور اس نتیجہ خیز تعاون میں کتنا مخلص اور ڈسپلن کا پابند کرتے ایسے غضب میںآ گیا کہ ہم نے عالمی ادارے پر اعتماد کرتے جھولی میں آتے مقبوضہ کشمیر بھی حاصل کرنے سے خود کو روک لیا ۔ یہ قیام امن کے لئے یو این کے اپنے کسی رکن کی پہلی اور بڑی آزمائش تھی جس پر حکومت پاکستان کا رسپانس آئیڈیل تھا یہ پروسیس فیصلہ سازی آنے والے عشروں میں جموں کشمیر کے بڑے حصے پر بھارتی قبضے کی شکل میں الٹ نتائج دیتی خود بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا کے امن کےلئے مستقل خطرہ بن گئی جس کی ایک انتہائی تشویشناک صورت میں آج دونوں ملک مبتلا ہی نہیں ہمسایہ خطے اور دنیا بھی اسے عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھ رہےہیں ۔
قارئین کرام !غور فرمایا جائے کہ ہماری کسی بھی حکومت نے بعداز قیام پاکستان اپنی نئی اور آنے والی (بھارتی بھی) کو آغاز سے ہی اپنے بطور قوم و ریاست اتنے امن پسند ہونے اور عملی کردار کو ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کے نصاب میں واضح کیا؟ کبھی یہ بتایا کہ کس طرح پاکستان کے اقوام متحدہ کے قیام پر ہی پہلے مستقل مندوب پروفیسر پطرس بخاری نے یونیسف جیسی فلاح و تحفظ اطفال کی عالمی تنظیم کے قیام میں کتنا اہم اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا، اہم اس طرح کے فقط ان کی انفرادی تجویز سے یونیسف کا قیام عمل میں آیا انقلابی اور نتیجہ خیز اس طرح کہ اس ڈویلپمنٹ ایجنسی کے یو این سیٹ اپ میں شامل ہونے سے عالمی ادارے کے سیاسی نوعیت کے محدود کردار میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ یو این ڈی پی کی چھتری میں فلاح انسان کی درجن بھر سے زائد سماجی ترقی کے ادارے تنظیمیں قائم ہو کر اقوام متحدہ کے نظام پر عملاً غالب ہو گئیں لیکن ہم پاکستان کے اس عظیم عالمی کردار کو دنیا میں ملک کے امیج بلڈنگ کے لئے تو کیا استعمال کرتے اپنے اس مایہ ناز کردارکو اپنی نئی نسل سے بھی اوجھل رکھا ۔اب ’’اسے آئین نو‘‘ میں نہ صرف آشکار کیا گیا بلکہ نئی نسل کی CONSUMPTION( ذہن نشینی ) کے لئے وقفوں سے دہرایا جاتا ہے کہ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ مطالعہ پاکستان کے آج کے نصاب میں تو بعض سیاسی شخصیات کے چیپٹر شامل کئے جا رہے ہیں ۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا سنجیدہ سیکشن اب ایسے حربوں ہتھکنڈوں کی مانیٹرنگ کا ذریعہ بنتا بھی نظر آرہا ہے اس کی بے نقابی کی صلاحیت بڑھ رہی ہے وگرنہ تو مطالعہ پاکستان پر تنقید کی آڑ میں قائد و اقبال کی تعلیمات و پیغامات کے تاریخی اور تعمیر یا مملکت کے بنیادی اور تاریخی اثاثے پر طنز و تشنیع کے لئے بڑی مکاری سے ایک ٹولہ وجود میں آگیا ہے جو اب ٹھٹک کر پیچھے ہو گیا ہے کہ اب تو بنگلہ دیش کی آنکھیں بھی کھل گئیں ۔
ارئین کرام !جاری زیر بحث موضوع کی اصل ضرورت تو جنگ کی طرف بڑھتی پاک بھارت پرخطر کشیدگی کے حوالے سے شدت سے محسوس ہوئی لیکن آج کی جدید جنگ میں ملٹری اسٹرائیکس کے اصل کردار کے ہم پلہ سویلین کا سرگرم کمیونیکیشن فرنٹ کتنی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے اسے واضح کرنا موجود پاک بھارت جنگ کے منڈلاتے خطرات میں بڑی اور فوری قومی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے اگرچہ وزیر اعظم مودی کے بیانات اور انداز بیان اس کے پہلے ریکارڈ کے باعث بھارت خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا کر پاکستان مقابل کمیونیکیشن وار ہار رہا ہے لیکن واضح رہے کہ اس میں پاکستان جس کا اپنا کمیونیکیشن فرنٹ بڑا سوال بنا ہوا ہے نے بھی اپنے بھارت مقابل زیادہ ابلاغی پوٹینشل ہونے کے باوجود صورتحال کے مطابق کوئی تیاری کی ہے نہ ’’قوت اخوت عوام‘‘ کو سرگرم معاون بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے ۔الٹا وزیر دفاع کے ڈیزاسٹر انٹرویو نے پاکستان کیلئے بیان صفائی کا بڑا ابلاغی چیلنج پیدا کیا لیکن دوسری جانب تو بنیاد پرست مودی نے پاکستان کو مٹی میں ملا دینے، پانی بند کرکے ملک کی بقا کا جو چیلنج پیدا کرنے کی اپنے تئیں ناکام ترین کوشش کی وہ صرف انڈیا کے قومی بیانئے کا ڈیزاسٹر ہی نہیں اس نے پاکستان کو کافی آزاد کر دیا کہ وہ بھارت اور دنیا پر بار بار واضح کرتا رہے کہ بنیاد پرست مودی کا بیانیہ ان کے مذموم ارادے کی مکمل بے نقابی کا سبب بنا ہے وہ پاکستان کی سلامتی ہی نہیں دشمن انسانیت ہونے کا واضح ثبوت ہے لیکن پاکستان نے یہ واضح کرکے کہ اس پر عملدرآمد ہماری لائف لائن ہے جس پر پاکستان کہاں تک جا سکتا ہے یا بھارت پیسفک اور دنیا اسے سمجھ کر فکرمند ہے یوں بھارت کیلئے مودی بیانیہ خودشکن ثابت ہوا اگلا آئین نو پاکستان کے کمیونیکیشن فرنٹ پر ہو گا ۔