برطانوی وزیر تجارت گیریتھ تھامس نے کہا ہے کہ کسی ریاست کو تسلیم کرنا ایک سیاسی فیصلہ ہوتا ہے اور برطانیہ سمجھتا ہے کہ فلسطین بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے، جیسا کہ 1933ء کے مونٹی ویڈیو کنونشن میں بیان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں 4 بنیادی شرائط شامل ہیں۔ مستقل آبادی، واضح سرحدیں، مؤثر حکومت اور دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب لیبر پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل نے برطانیہ کے پیش کردہ امن منصوبے کی شرائط نہ مانیں تو برطانیہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر لے گا۔
امن منصوبے میں شامل شرائط میں غزہ میں جنگ بندی، غربِ اردن کا الحاق روکنا، اور امن مذاکرات میں شمولیت شامل ہیں تاہم جمعرات کو ہاؤس آف لارڈز کے 40 ارکان، جن میں ممتاز وکلاء بھی شامل ہیں نے اٹارنی جنرل رچرڈ ہرمر کو خط لکھ کر اس فیصلے پر قانونی اعتراضات اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے پاس نہ واضح سرحدیں ہیں، نہ مکمل حکومت کیونکہ فتح اور حماس آپس میں منقسم ہیں۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ بین الاقوامی قانون کو سیاسی فائدے کے لیے ’چن چن کر استعمال کرنا‘ درست نہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ قانون کی بالادستی کو برقرار رکھے۔
اس کے جواب میں وزیر گیریتھ تھامس نے کہا کہ دنیا کے 140 سے زیادہ ممالک پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں اور اگر اسرائیل ستمبر تک امن کی طرف قدم نہ بڑھائے تو برطانیہ بھی یہ قدم اٹھائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ فلسطینی ریاست کو 1967ء کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کرے گا۔
یہ پیشرفت برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور بین الاقوامی قانون کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ہے۔