انفارمیشن سروس اکیڈمی کا ہال کچھا کچھ بھرا ہوا تھاہال میں جتنی نشستوں پر سامعین براجمان تھے اتنی تعدا د میں کھڑے تھے وفاقی دار الحکومت میں طویل عرصہ کے بعد غیر سرکاری پلیٹ فارم پر علمی ادبی و نیم سیاسی نوعیت کی تقریب منعقد ہوئی جس میں وفاقی وزراء، سیاست دانوں، ادیبوں اور صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی یہ اپنی نوعیت کی منفرد تقریب تھی جس شخصیت کے بارے کتاب لکھی گئی ہے اس (محمد نواز شریف ) نے اپنے آپ کو جاتی امرا میں ’’قید‘‘ کر رکھا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں اس پر لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد ہوا۔ تقریب کا دورانیہ تقریباً تین گھنٹے رہا۔ تقریب کی صدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر راجہ محمد ظفر الحق نے کی جب کہ مہمانان خصوصی وفاقی وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات امیر مقام اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری تھے۔ راقم السطور نے صاحب کتاب ہونے کے ناطے بتایا کہ ’’میں نے یہ کتاب کسی کی فرمائش پر تحریر کی اور نہ ہی کسی طمع یا لالچ میں۔ میں نصف صدی سے زائد عرصہ پیشہ صحافت سے منسلک ہوں، جب سے میاں نواز شریف نے میدان سیاست میں قدم رکھا ہے انکے سیاسی عروج وزوال، حکومت، اپوزیشن، جلا وطنی اور جیل کہانی سے متعلق واقعات کا عینی شاہد ہوں چار دہائیوں پر مشتمل تحریروں کو مجتمع کر کے کتابی شکل دے دی ہے کتاب میں جہاں میاں صاحب کی جرات واستقامت کے حوالے سے واقعات کا ذکر ہے وہاں ان کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے‘‘ جب میں نے پیشہ صحافت کو اپنایا تو جن شخصیات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ان میں میاں محمد نواز شریف کا نام نمایاں ہے پچھلے 4عشروں پر محیط اس تعلق میں وقت کے ساتھ مزید پختگی آتی گئی وقت کے ساتھ ساتھ تعلق نے ’’دوستی اور محبت‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔ پاکستانی معاشرے میں صحافی کی کسی سیاست دان سے ’’دوستی اور محبت‘‘ کے غلط معنی لیے جاتے ہیں اور کاسہ لیسی کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں اور جو صحافی کسی سیاست دان کے جتنا قریب ہو تا ہے اتنا ہی اس سیاست دان کے مخالفین کے نشانے پر ہوتا ہے میرے خیال میں صحافی کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا جب وہ خبر فائل کرے تو اس میں اس کی غیر جانبداری ہونی چاہیے لیکن اس میں اپنا نقطہ نظر شامل نہیں کرنا چاہیے جب کسی معاملہ پر اپنی رائے کا اظہار کرے تو وہی کچھ کہے جو اس کے دل و دماغ میں ہو لہٰذا میں نے ’’مرد آہن‘‘ کی کمزوریوں کو بیان کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا ۔مجھے یاد نہیں میاں محمد نواز شریف سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ البتہ مجھے یاد ہے جب میں 1988-89میں پہلی بار راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب جو اب نیشنل پریس کلب کہلاتا ہے کا صدر منتخب ہوا تو میں نے ان کو پریس کلب میں میٹ دی پریس پروگرام میں مدعو کیا۔ اس وقت ملکی سطح پر سیاست پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی پر مشتمل تھی اسی طرح صحافیوں میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم تھی میرے مخالف پینل کا تعلق چونکہ پیپلز پارٹی کے حامیوں سے ہوتا تھا لہٰذا ہمیں مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی حامی تصور کیا جاتا تھا اس میں کوئی شک نہیں پریس کلبوں کے انتخابات پر بیرونی سیاست کے اثرات مرتب ہوتے تھے ۔ میری بیشتر تحریروں کا موضوع نواز شریف کی سیاست رہی ہے نواز شریف کی تعریف و توصیف میرے ناقدین کو پسند نہیں آئی۔ اس لئے ان کی نظر میں ،میں ہمیشہ ان کی تنقید کا نشانہ بنا ان کی نظر میری اس تنقید پر کبھی نہیں پڑی جو میں نے نواز شریف کی سیاست کے حوالے سے کی۔ جس کا بارہا ذکر نواز شریف نے ملاقاتوں میں کیا۔ (جاری ہے)
آپ کسی ’’سیاست دان‘‘ کی کارکردگی پر برائے اصلاح تنقید بھی کریں تو اسے پسند نہیں ہوتی وہ ایک سمجھدار سیاست دان ہیں ان کے حامی اور سیاسی مخالفین نواز شریف کو انڈر اسٹیمیٹ کرتے ہیں میں نے نواز شریف کو اتھارٹی منوانے والے لیڈر کے طور پایا ہے میں نے اپنی سیاسی زندگی میں اس قدر مضبوط اعصاب کا لیڈر نہیں دیکھا، بار بار جیل یاترا کی ، سول اور عسکری قوتوں کے درمیان طاقت کے توازن قائم کرنے کی جنگ میں تین بار’’سیاسی شہید‘‘ ہوئے۔ ایک بار پرویز مشرف کا بس چلتا تو انہیں تختہ دار پر لٹکا کر نشان عبرت بنا دیتا لیکن وہ نواز شریف کے دوست ممالک کی مداخلت کے سامنے ’’بے بس‘‘ ہو کر انہیں صرف جلاوطنی کی سزا ہی دے سکا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے ان کو دو تین بار ’’نا اہل‘‘ قرار دے کر ملکی سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ آج بھی عوام کے دلوں میں بستے ہیں تمام تر مخالفت کے باوجود انکا چوتھی بار ملک کا وزیر اعظم بننا یقینی نظر آ رہا تھا لیکن 8فروی 2024ء کے انتخابات کے نتائج نے نواز شریف کو نہیں نوازا جس کے باعث وہ چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے۔ ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے بننے والی حکومت کا سربراہ بننے سے معذرت کر لی یہی وجہ ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) جوان کی کل متاع حیات ہے کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا ہے 16ماہ حکومت میں پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا گیا لیکن پارٹی کا ’’پولیٹکل کیپٹل‘‘ لٹ گیا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین کا یہ کہنا ہے نواز شریف منتقم مزاج لیڈر ہیں اور وہ اپنے گرد خوشامدیوں کا گھیرا پسند کرتے ہیں ممکن ہے ان کی رائے میں کچھ وزن ہو لیکن میں نے نواز شریف کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا وہ محفل سجانے والی شخصیت ہیں موڈ میں ہوں تو سارا دن لطائف سنانے اورسننے میں گزار دیتے ہیں میں نے انہیں مصائب و مشکلات میں بھی قہقہے لگاتے دیکھا ہے۔ رائے ریاض تین بار وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری رہے انہوں نے اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کے ساتھ گزرے ایام کی یادوں کے دیپ جلائے۔ (جاری ہے)