ڈاکٹر نسیم اشرف جن کا شمار جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے ،چند ماہ قبل شائع ہونیوالی انکی کتاب ’’Ring Side‘‘کے بہت چرچے رہے۔ ڈاکٹر نسیم اشرف جنکا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے ،پرویز مشرف کے دور میں یہ 6سال تک کابینہ میں رہے اور پھر چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم The Association of physicians of Pakistan Decent in North Americaجس کے ڈاکٹر نسیم اشرف بھی صدر رہے ہیں۔ ہرسال اس تنظیم کا پاکستان میں اجلاس ہوتا ہے اور جو بھی سربراہ ریاست ہو، اسے چیف گیسٹ کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے۔ 1980ء میں پہلا اجلاس کراچی میں ہوا تھا جس میں جنرل ضیاالحق مہمان خصوصی تھے اور 1999ء میں اسلام آباد کے پنج تارہ ہوٹل میں ہونیوالی تقریب کیلئےفوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو مدعو کیا گیا تھا۔جس دن تقریب تھی اس سے ایک دن پہلے جنرل پرویز مشرف کے والد سید مشرف الدین وفات پا گئے تو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود جو ڈاکٹر نسیم اشرف کے دوست تھے، انہوں نے تجویز دی کہ انکے گھر تعزیت کیلئے چلے جائیں اور یہ بھی پوچھ لیں کہ وہ شیڈول کے مطابق تقریب میں آسکیں گے یا نہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ہامی بھرلی اور اگلے دن تقریب میں ڈاکٹر نسیم اشرف نے تقریر کرتے ہوئے ایک ایسا جملہ کہا، جو جنرل پرویز مشرف کے دل میں گھر کر گیا۔ ڈاکٹر نسیم اشرف نے کہا، جب تک ایک چپراسی کے بیٹے اور ایک جرنیل کے صاحبزادے کو تعلیم اورسماج میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر نہیں آئینگے، اس وقت تک پاکستا ن ترقی نہیں کرسکتا۔ تقریب کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کہا، ڈاکٹر صاحب، مجھے تجاویز دینے والے تو بہت ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کیا کیا جائے اور کیسے آگے بڑھا جائے؟ ڈاکٹر نسیم اشرف نے کہا، میں آپ کو ایکشن پلان بنا کر دے سکتا ہوں۔ڈاکٹر نسیم اشرف صفحہ نمبر53پر لکھتے ہیں کہ اگلی صبح جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ندیم تاج کی ٹیلیفون کال آگئی اور انہوں نے بتایا کہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کو آپ کی تجویز میں دلچسپی ہے اور وہ اس حوالے سے مزید جاننا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم اشرف نے بتایا کہ دو دن میں چھٹیاں ختم ہورہی ہیں اور میں نے واپس جانا ہے۔ بریگیڈیئر ندیم تاج نے کہا کہ کل صبح سات بجکر 20منٹ پر آرمی ہاؤس آجائیں، جنرل صاحب 7بجکر30منٹ پر وزیراعظم ہاؤس جانے کیلئے نکلتے ہیں، آپ گاڑی میں ان کیساتھ بیٹھ کر بات کرلیجئے گا۔ گاڑی سے اُترتے وقت جنرل پرویز مشرف مکمل طور پر قائل ہوچکے تھے،انہوں نے اپنے پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز کو کہا کہ میں نیشنل لٹریسی اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ سے متعلق ڈاکٹر صاحب کے ایکشن پلان سے متفق ہوں، یہ اس مہم کو لیڈ کرینگے، براہ راست مجھے جواب دہ ہونگے، انہیں مکمل تعاون فراہم کیا جائے۔ یوں 3ستمبر 2001ء کو پریذیڈنٹ ٹاسک فورس آن ہیومن ڈیولپمنٹ بنا کر ڈاکٹر نسیم اشرف کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا جبکہ 22جولائی 2002ء کو نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیولپمنٹ بنا کر ڈاکٹر نسیم اشرف کو اسکا چیئرمین تعینات کردیا گیا اور انکا یہ عہدہ وزیر مملکت کے برابر تھا۔ گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود امریکہ میں تھے اور واپس آکر انہوں نے ہی جنرل پرویز مشرف کو بتایا تھا کہ امریکی حکام نے ساتھ نہ دینے کی صورت میں پاکستان پر بمباری کرکے پتھر کی دنیا میں دھکیل دینے کی دھمکی دی ہے مگر بعدازاں بش انتظامیہ کے کسی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق نہیں کی مگر ڈاکٹر نسیم اشرف نے اپنی حالیہ تصنیف میں اس بحث کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔ انکا دعویٰ ہے کہ انہیں بھی جارج بش کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں کام کرنیوالے ایک قریبی شخص نے ٹیلیفون کرکے یہ بات بتائی کہ پاکستان نے درست فیصلہ نہ کیا تو اسے پتھر کی دنیا میں دھکیل دیا جائیگا۔ رات دو بجے جنرل پرویز مشرف سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تو ڈاکٹر نسیم اشرف نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اور پھر جنرل پرویز مشرف کا خصوصی پیغام لیکر امریکہ روانہ ہوگئے۔ 18ستمبر 2001ء کو جارج بش نے امریکہ کے مسلمانوں کو مدعو کر رکھا تھا اور ان میں ڈاکٹر نسیم اشرف کا نام بھی شامل تھا۔ جب ملاقات ختم ہوئی تو ڈاکٹر نسیم اشرف نے باآواز بلند کہا، جناب صدر میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آپ کیلئے خصوصی پیغام لیکر آیا ہوں اور یہ سن کر جارج بش انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ ڈاکٹر نسیم اشرف نے گیارہ ستمبر کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود کی امریکی ہم منصب سے ملاقات کا حال بھی بیان کیا ہے۔ وہ صفحہ نمبر 13پرلکھتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود کی سی آئی اے چیف جارج ٹینٹ سے کم وبیش وہی باتیں ہوئیں جو اس سے پہلے رچرڈ آرمٹیج سے ملاقات کے دوران ہوچکی تھیں۔ جنرل محمود نے ذاتی طور پر مجھے بتایا کہ جب وہ جارج ٹینٹ سے ملے تو وہ سچ مچ سسکیاں بھرتے ہوئے رو رہے تھے، جنرل محمود نے اپنے بازو ان کی گردن کے گرد حمائل کرکے تسلی دی اور کہا کہ جارج،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہم ان سے نمٹ لیں گے۔ جنرل پرویز مشرف جو خود کو کمانڈو کہتے تھے، بش انتظامیہ کے مطالبات کے آگے ڈھیر ہوگئے مگر ڈاکٹر نسیم اشرف اپنی کتاب میں انکا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے پانچ مطالبات تو من و عن تسلیم کرلئے مگر دو باتوں کی جزوی طور پر اجازت دی۔ انہوں نے پاکستان کی مکمل فضائی حدود امریکی فوج کے حوالے کرنے کے بجائے محض ایک مخصوص فلائٹ کاریڈور دیا اور تمام فوجی اڈوں تک رسائی دینے کے بجائے سندھ کا جیکب آباد اور بلوچستان کا شمسی ایئر بیس امریکی حکام کے حوالے کیا۔ اگر آپ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جیکب آباد اور شمسی ایئر بیس ہی نہیں بلکہ دالبدین اور ژوب کی ایئر اسٹرپس بھی امریکی حکام کے حوالے کی گئیں اور یہ فیصلہ کرتے وقت جنرل پرویز مشرف نے کورکمانڈرز کو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا۔ جنرل شاہد عزیز کے مطابق جب کوئٹہ سے ایک بٹالین سیکورٹی کیلئے جیکب آباد ایئر بیس بھیجی گئی اور وہاں موجود امریکی فوج نے ہمارے دستوں کو اندر داخل ہونے سے روک دیا تو معلوم ہوا کہ یہ جگہ اب علاقہ غیر ہے۔