تحریر: نرجس ملک
آرائش: Bege Salon
کیکس: Cakes by Rabyaa's
کوآرڈی نیشن: عابد بیگ
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
؎ قرآں نے ماں کے پیار کی ایسی مثال دی..... قدموں میں اُس کے جنت الفردوس ڈال دی۔ ؎ جس کے پیروں کے نیچے جنّت ہے..... اُس کے سر کا مقام کیا ہوگا۔ اور ؎ ذات کی نرمی، ذہنی ٹھنڈک، شفقت ساری دنیا کی..... اُس نے رکھ دی مسجد دل میں، جگ کی ساری ماؤں میں۔ گرچہ ماؤں کی جو نسلیں ہم سے جدا ہوگئیں یا جو وداع ہوتی جارہی ہیں، اُن کا تو کوئی ثانی، نعم البدل ہی نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ماں، ماں ہی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی دَور، خطّے طبقے اور رنگ و نسل کی ہو۔
کسی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی، کُٹیا، کچے گھر میں انتہائی تکلیف و اذیت اُٹھا کر بچّہ جنمنے والی ماں ہو یا متوسّط طبقے کی زندگی بھر جدوجہد کرنے والی عام، گھریلو سی ماں، کوئی پڑھی لکھی، ملازمت پیشہ، چکّی کے دو پاٹوں میں پِستی ماں ہو یا منہ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہونے والے بچّے کی ایک Privileged (مراعات یافتہ) ماں، اِک عام سی شکل و صُورت کی اَن پڑھ، جاہل، گنوار ماں ہو یا مسندِ اقتدار پر فائز، مُلک و قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والی کوئی عالی شان، ذی وقارماں، کسی بھوکے ننگے بچّے کی غریب ماں ہو یا کوئی بڑی اہم، شان دار سلیبریٹی ماں۔
ماں، بہرکیف ماں ہی ہوتی ہے اور بطور ماں اُس کی سعیٔ پیہم، اَن گنت، لازوال قربانیوں سے انحراف قطعاً ممکن نہیں کہ نو ماہ کوکھ میں اُٹھائے اُٹھائے پِھرنے کی مشقّت اور پھر مرجانے کی سی اذیت سہہ کے اپنے وجود سے ایک اور وجود کی تخلیق کے عمل سے تو ہرماں ہی گزرتی ہے۔ یوں تومائوں کی تگ و دو، ایثار و قربانی کی مثالوں سے دنیا بَھری پڑی ہے، لیکن آج ’’ماؤں کے عالمی یوم‘‘ کے موقعے پر ہم جس بہت خاص، بہت پیاری، پُرعزم ماں سے آپ کی ملاقات کروا رہے ہیں۔ اُنہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں کسٹمائزڈ، ڈیکوریٹیوکیک متعارف کروانے والوں میں شامل ہیں اور آج اُن کا نام، اُن کے اعلیٰ کام کی شناخت اور ضمانت ہے۔
رابعہ قیصر، کالج آف ہوم اکنامکس کی گریجویٹ ہیں۔ کُکنگ، بیکنگ، آرٹ اینڈ کرافٹ کا شوق تو گویا اُن کی گُھٹی میں پڑا تھا کہ رابعہ ہی نے نہیں، اُن کی والدہ نے بھی کالج آف ہوم اکنامکس ہی سے گریجویشن کی۔ رابعہ شادی سے قبل بھی اپنے تمام شوق پورے کرتیں۔ سلائی کڑھائی، کٹنگ، کروشیاورک، کینڈل/ فلاور میکنگ، بوتلیں، برتن، فیبرک پینٹنگ، ڈرائنگ، کیلی گرافی، وال میورلز، ڈاٹ آرٹ سے لے کر ہر طرح کے کھانے، خصوصاً ڈیزرٹس، کیکس بنانے تک کون سا کام تھا، جو اُنہوں نے شوقیہ اورضرورتاً بھی نہیں کیا۔ بےکار اشیاء کو کار آمد بنانا تواُن کا خاصّہ رہا۔
تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ٹام بوائے کی طرح رہیں، لیکن گھر کا کونا کونا اُن کی صلاحیتوں، مہارتوں، سگھڑاپے کا امین تھا۔ اپنے دادا کے ساتھ گارڈننگ تک انتہائی شوق سے کرتیں۔ والدین، اُن کے کسی شوق کی راہ میں کبھی حارج نہ ہوئے۔ 1996ء سے باقاعدہ کُکنگ، بیکنگ سِکھا بھی رہی ہیں۔ اور پھر شادی کے بعد ابتداً معاشی ضروریات کے پیشِ نظر شوق کو پروفیشن بنایا۔ پہلے ایک ریسٹورنٹ کا تجربہ کیا۔
بعدازاں، 2009ء سے کیکس کا برانڈ متعارف کروایا اور ایم ایم عالم روڈ، گلبرگ، لاہور سے اپنی شاپ کا آغاز کردیا۔ شروع میں بیکنگ کابنیادی سامان، مولڈز وغیرہ نہ ہونے کے سبب چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا۔ لوگوں سے جو ایڈوانس لیتیں، اُسی سے سامان خرید کر کیک تیار کرتیں۔ فیس بُک کو تشہیر کا ذریعہ بنایا اور پھر دن رات کی محنت، ایمان داری، کام سے لگن نےجلد ہی ایک نام و مقام عطا کردیا۔
یہاں تک کہ کسٹمائز، ڈیکوریٹیو، تھیم کیکس کے لیے لاہور بَھر میں ایک ہی نام مستند و قابلِ اعتماد ٹھہرا۔ کام بہت بڑھ رہا تھا اور بچّے چھوٹے تھے، تو ایسے میں والدین نے حددرجہ سپورٹ کیا۔ قدم قدم پر ساتھ دیا۔ اور آج جب وہ ایک کام یاب بزنس وومین اور چار بہت پیارے، سمجھ دار بچّوں کی ماں کے طور پرمعاشرےمیں ایک اعلیٰ مقام کی حامل ہیں، تو اپنی تمام ترکام یابیوں کا کریڈٹ اپنی والدہ کو دیتی، یہ سہرا اُن ہی کے سرباندھتی ہیں کہ والد بھی 2003ء میں داغِ مفارقت دے گئے تھے۔
رابعہ قیصر تین بیٹیوں (ہانیہ، شہربانو، نتالیہ) اور ایک بیٹے (دیّان) کی ماں ہی کے منصب پر فائز نہیں۔ بطورسنگل پیرنٹ، اولاد کی تمام تر معاشی و معاشرتی ضروریات کی تکمیل، تعلیم و تربیت کی مکمل ذمّے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر ہے۔ اُن کا کام کیک میکنگ سے بڑھ کر دیگر بیکری آئٹمز، فروزن فوڈزاورگُڈی بیگز کی تیاری تک وسیع ہو چُکا ہے اور اب اِس کام میں اُن کے چاروں بچّے بھی اُنہیں بھرپور معاونت فراہم کرتے ہیں۔
رابعہ کی والدہ اُن کی رول ماڈل ہیں، تو وہ اپنے بچّوں کی آئیڈیل، مینٹور۔ہم نے’’مدرز ڈے‘‘ کی مناسبت سے رابعہ سے بطور ماں اُن کی جدوجہد، مشکلات اور Blessings سے متعلق سوال کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’الحمدُللہ، مَیں بہت خوش نصیب ہوں کہ اللہ نے مجھے میری محنتوں، کوششوں کا بہترین اجر عطا کیا۔
اُس کی نعمتیں، مہربانیاں شمار بھی کرنا چاہوں، تو نہیں کرسکتی۔ میرے مثالی والدین، میرا انتہائی مہربان ددھیال، ننھیال، خالائیں، بھائی، بھابھیاں اور سب سے بڑھ کر ساری دنیا سے پیارے میرے چاروں بچّے، میرے دوست احباب، میرے مطمئن کلائنٹس، میری کام یابیاں، میری نیک نامی…سچ تویہ ہےکہ میرے اللہ نے مجھے میری بساط سےکہیں زیادہ نواز رکھا ہے۔ ماں کا تو مطلب ہی جدوجہد ہے۔
کون سی ماں ہے، جو اپنی اولاد کے لیے اپنا آپ وقف نہیں کرتی، تن مَن دَھن نہیں وارتی، مگر ہر ماں Blessed بھی ہو، یہ ضروری نہیں۔ اپنی نسبت، اپنی ماں کی خدمات، قربانیاں دیکھوں، تو کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا، وہ تو آج بھی اپنی ہمّت سے کہیں بڑھ کے کرتی ہیں، تو اس اعتبار سے مجھ پر رب کا بڑا کرم ہے اور مَیں اپنی زندگی سے بے حد مطمئن بھی ہوں۔‘‘
’’بچّوں کے ساتھ دن بھر کا شیڈول کیا رہتا ہے، اُن کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں کچھ رہنما اصول فالو کرتی ہیں اور کیا اکلوتے بیٹے اور بیٹیوں کے ضمن میں کسی قسم کی تخصیص بھی برتتی ہیں؟‘‘ اس سوال پر رابعہ نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں اپنے چاروں بچّوں کے ساتھ سو فی صد یک ساں برتاؤ رکھتی ہوں۔ گرچہ چاروں کے ساتھ ہی میرا رویّہ بہت دوستانہ ہے۔
میرے کسی بچّے کو کبھی مجھ سے کوئی بھی بات کرنے میں نہ تو کوئی جھجک ہوتی ہے اور نہ ہی کبھی کچھ چُھپانے یا غلط بیانی کی نوبت آتی ہے، لیکن اس دوستی کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ ماں کی عزت و احترام میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔ رہی بات، دن بھر کے شیڈول کی تو بچّوں کا، اسکول، کالج کے بعد بیش تر وقت گھرمیں، میرے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ ہماری سوشل لائف بہت محدود ہے۔ ہم پانچوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش باش، مطمئن اور پُرسکون رہتے ہیں۔ میرا زیادہ تر کام گھر پہ ہوتا ہے، تو بچّے اپنی پڑھائی کے بعد میرے کام میں پورا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
یہ دورِجدید کے بچّے ہیں، تو اِن کے پاس بہترین آئیڈیاز ہی نہیں، یہ مختلف اِسکلز سے بھی مالا مال ہیں۔ سچ کہوں، تو اب میرے لیے اِن کے بغیر کسی بھی آرڈر کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا آسان نہیں۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جو بچّہ والدین کا زیادہ احساس، فکر کرتا ہے، وہ والدین کے دل کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لیکن مَیں اس تخصیص کی بھی قائل نہیں کہ بچّے اپنی فطرت، مزاج کے مطابق ہی والدین کے ساتھ رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن والدین کا یہ فرض ہےکہ وہ اپنے تمام بچّوں کے ساتھ ہمیشہ ایک سا رویّہ رکھیں۔
ایک پر، دوسرے کو کسی بھی سبب فوقیت نہ دیں کہ اِس طرح بچّوں میں ایک احساسِ رقابت جنم لیتا ہے۔ دنیا میں آنے والا ہربچّہ اپنی جگہ ہزارہا خُوبیوں سے متصف اور مکمل ہے۔ اب یہ والدین کی ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے ہر بچّے کو اس کی شخصیت کی تمام تر خُوبیوں، خامیوں کے ساتھ نہ صرف قبول کریں۔
بلکہ خوبیاں اجاگر اورخامیاں دُور کرنے کی بھی ہرممکن سعی کریں۔ والدین کا یہ منصب ہی نہیں کہ وہ اپنے بچّوں کو Judge کریں۔ وگرنہ باقی دنیا اور والدین میں کیا فرق رہ جائے گا۔ میرے چاروں بچّے، میرے دل کے چار خانوں کی طرح ہیں اور ہر خانہ اپنی اپنی جگہ بالکل فِٹ، پرفیکٹ ہے۔ اور پھر اولاد تو اولاد ہوتی ہے۔ کوئی بیٹے، بیٹی میں تخصیص کا بھلا تصوّر بھی کیسے کر سکتا ہے، مَیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے کہ خُود ماں بننے کے بعد، اپنی ماں کی قدر دوچند ہوجاتی ہے، آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو رابعہ نے بھرائی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’سو فی صد ایسا ہی ہے۔ سچ کہوں، تو مجھے اپنی ماں کی اصل قدر شادی اور پہلی اولاد کے بعد ہی ہوئی۔ شادی سے پہلے تو ماں کی روک ٹوک، ذمّے داریاں ڈالنے پر کچھ غصّہ بھی آتا تھا۔ اب تو لگتا ہے کہ ماں کا کہا حدیث، صحیفۂ آسمانی میں رقم کسی تحریر کے مِثل ہے،حتیٰ کہ وہ باتیں، جن پرکبھی غصّہ آتا تھا، اب پیار آتا ہے۔
ماں کی بےلوث محبت، بےمثل ممتا، اولاد کے لیے فکرو پریشانی، تمنائیں، دُعائیں سب سمجھ آتی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے، مَیں اپنی ماں کا عکس، پرچھائیں بنتی جارہی ہوں۔ بعض اوقات بچّوں سے وہ جملے بول رہی ہوتی ہوں، جو کبھی امّی میرے لیے کہتی تھیں۔ خاص طور پر امّی کا وہ پیٹنٹ جملہ ’’خُود ماں بنوگی، تو پتا چلےگا۔‘‘ اور واقعی، خُود ماں بن کے ہی پتا چلتا ہے کہ ’’ماں ہونا کیا ہوتا ہے۔‘‘وہ کسی کا شعر ہےناں ؎ چھت، دیواریں، کونا کونا کیسا ہوتا ہے..... ماں ہو تم اور ماں کا ہونا ایسا ہوتا ہے۔ تو ماں کا ہونا کیا ہوتا ہے، اب مجھ سے زیادہ کسی کو نہیں پتا ہوگا۔ یقین کریں، ابھی بھی امّی کا تصوّر ہی ذہن میں آجائے ناں، تو اندر تک ایک سُکون کی لہر اُترجاتی ہے۔
زندگی کی بڑی سے بڑی پریشانی امّی سے شیئر کرلوں، تو پھر کسی سے کچھ کہنے سُننے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مَیں خود اب چار بچّوں کی ماں ہوں، لیکن امّی جان آج بھی امّی جان ہیں۔ وہ کبھی میرے گھرخالی ہاتھ نہیں آئیں اور مَیں تو مَیں، میرے بچّوں میں بھی اُن کی جان ہے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’اصل سے سُود پیارا ہوتا ہے۔‘‘ تو میری ماں کا دل پتا نہیں کتنا فراخ ہے کہ ممتا نچھاور کرتے کرتے نہیں تھکتا۔ شاید ماؤں کے دِلوں سے جو ممتا کے بیج، سوتے پُھوٹتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تناور درخت، زم زم میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’موجودہ دو نسلوں نےبڑا برق رفتار دَور دیکھا ہے، غالباً پچھلی کسی نسل نے ایسی ہوش رُبا تبدیلیوں کا تجربہ نہیں کیا، تو آپ کیا سمجھتی ہیں، ہمارے والدین کے لیے ہماری تعلیم و تربیت کے مراحل مشکل تھے یا ہمیں کچھ زیادہ چیلنجز درپیش ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں رابعہ کا کہنا تھا کہ ’’اولاد کی تعلیم وتربیت کسی دَور میں بھی آسان امر نہیں رہا۔ ہمارے آباء و اجداد، والدین نے بھی جان جوکھوں میں ڈال کر ہی اپنی اولاد پروان چڑھائی، اور ہمارے لیے بھی یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔ اُن کے مسائل، چیلنجز الگ تھے، ہمارے الگ ہیں۔
میرے والدین نے مجھ پر بہت بھروسا کیا، بہت اعتماد دیا۔ کبھی بےجا ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھ سے کبھی کوئی چیز ٹوٹتی یا خراب ہوجاتی، تو ابّو نے کبھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ یہی کہا ’’کوئی بات نہیں، دوبارہ کوشش کرو۔‘‘ حالاں کہ میری والدہ انتہائی سگھڑ ہیں، ہر کام کاملیت سے کرتی ہیں، لیکن مجھے کبھی کسی ناکامی، نقصان پرڈی موٹیویٹ نہیں کیا گیا۔
اِسی لیے مَیں بھی آج بچّوں کو ہدایتوں، نصیحتوں کے لمبے لمبے لیکچرز دینے کے بجائے اُن کے سامنے رول ماڈل بننے کی کوشش کرتی ہوں کہ وہ زبانی کلامی باتوں کی بجائے میرے عمل سے سیکھیں اور یہ میرے والدین کی وراثت ہے، جو مَیں چاہتی ہوں کہ اگلی کئی نسلوں میں منتقل ہو۔‘‘
’’والدہ کی زندگی کے اہم ایونٹس، خصوصاً ’’مدرز ڈے‘‘ کا اہتمام کیسے کرتی ہیں اور آپ کے بچّےآپ کے اہم دنوں کو کچھ اور بھی خاص بنانے کے لیے کیا کرتے ہیں؟‘‘ ہمارا آخری سوال تھا، جس کا جواب رابعہ نے بڑے رسان سے دیا کہ ’’مَیں اور تینوں بھائی اکثر امّی کے لیے اُن کی پسندکی چیزیں لے لیتے ہیں۔ ویسے ہماری ماں اتنی سادہ، اتنی پیاری ہیں کہ چھوٹے چھوٹے تحائف ہی پر بہت خُوش ہوجاتی ہیں۔ مَیں تو زیادہ تر اُن کے لیے کوئی اچھا سا کیک تیار کرلیتی ہوں یا ہم اُنہیں کھانے پر لے جاتے ہیں۔
اسی طرح میرے بچّے بھی اکثر میرے لیے سرپرائز گفٹس/ پارٹیز کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ میرا شروع سے ایک انداز ہے کہ مَیں اپنے بچّوں کے تحائف اکثررات کو اُن کے سونے کے بعد، اُن کے سرہانے رکھ دیتی ہوں، تاکہ صُبح اُٹھتے ہی وہ اپنی پسند کی کوئی چیز دیکھیں، تو اُن کا پورا دن ہشاش بشاش گزرے۔ اوراب یہی میرے بچّے میرے ساتھ کرتے ہیں۔
اکثر خوب صُورت عبارات سے مرصّع ہینڈمیڈ کارڈز گفٹ کرتے ہیں یا ایونٹ کی مناسبت سے کیک بیک کرلیتے ہیں۔ میری تو بس یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کاگھنیرا سایا تادیر سلامت رکھے اور میرے بچّوں کو دین و دنیا کی ہر خوشی، کام یابی سے نوازے۔ نیز، مَیں اُن کے ایمان کی سلامتی اور اچھے، بُرے کے مابین فرق کے لیے بھی ہمیشہ دُعاگو رہتی ہوں۔‘‘
رابعہ قیصر کی سب سے بڑی بیٹی ہانیہ 19 سال کی ہیں، دیّان 16 برس کے، شہربانو 13 سال کی اورنتالیہ 9 برس کی۔ چاروں بچّوں نے ’’مدرزڈے‘‘ کے موقعے پر اپنی بہت پیاری والدہ کو ایک، دو جملوں میں کچھ اِس طرح خراجِ تحسین پیش کیا۔ ’’میری والدہ میری بیسٹ فرینڈ ہیں۔ میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں، جن سے مَیں اُن کی خدمات، محبتوں، شفقتوں کا قرض ادا کر سکوں۔‘‘، ’’مَیں اپنی والدہ پر جتنا فخر کروں، کم ہے۔
شاید مَیں دنیا کا خوش قسمت ترین بیٹا ہوں کہ جس کوماں کی شکل میں ایک بہترین رہنما بھی میسّر ہے۔‘‘، ’’ممی! آپ نے ہمارے لیے آج تک جتنا کچھ کیا ہے، آپ یہ ڈیزرو کرتی ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر دن، آپ کا دن ہو۔‘‘ ’’مام! آپ کوآپ کا دن بہت بہت مبارک ہو۔ آپ دنیا کی سب سے اچھی، سب سے پیاری ماں ہیں۔ آئی لو یو سو مچ۔‘‘