• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حق میں دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ


سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حق میں دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عدالت میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 9 مئی کو 3 بجے سے شام 7 بجے تک 4 گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے۔ 23 فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 فوجی تنصیبات پر خیبر پختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ جی ایچ کیو راولپنڈی، کورکمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے ہوئے اور ان کے علاوہ میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر بھی حملے ہوئے۔ 9 مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کے ساتھ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر شام کو 5 بجکر 40 منٹ پر حملہ ہوا، حملے کے بعد 9 بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی لیکن ردعمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا، راولپنڈی میں ایک سابق وزیراعظم کو 2007ء میں قتل کیا گیا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو تو اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پینشن اور مراعات کے ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14 افسران کو آگے ترقی نہیں ملے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کےخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ 

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی ہے جب جرم کیا ہوتا ہے جبکہ محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔

جسٹس اظہر رضوی نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خودسوزیاں کیں، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کو جا کر نقصان پہنچائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا جناح ہاؤس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاؤں گا کیسے ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ 9 مئی کو جو کچھ بھی ہوا کیا جرم کی نیت سے کیا گیا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کروانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہو۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا  کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا۔

اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کےلیے دینا ممکن نہ ہوں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والے جنرل کور کمانڈر لاہور تھے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بغیر پینشن ریٹائر کیے گئے جنرل کور کمانڈر لاہور ہی تھے۔

جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا۔

جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے تو بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لی گئی تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے ہیں جبکہ دیگر کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دی جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کے لیے رکھے تھے۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا اپنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ میں ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مختصر فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔

قومی خبریں سے مزید