قارئین کرام خصوصاً موضوع کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا فوری انہماک مطلوب ہے غور فرمائیں صرف گزشتہ تین دن میں برصغیر پر چھائے جنگی بادلوں کے بنائے تشویشناک ماحول میں بھارتی حکومت و افواج و میڈیا کی تیز تر حرکیات ے ان تجزیوں، آراو تاثرات و غلط فہمیوں سےدونوں جانب اپنے اس بیانئے کو کمزور ثابت کر دیا ہے کہ ’’پاک بھارت جنگ نہیں ہو گی ‘‘ یہ بیانیہ ایک مخصوص و محدود فیصد میں لیکن سنجیدہ اذہان و ابلاغ سے تشکیل پایا بہت اہم نیریٹیو ضرور ہے جو خطے کی دو ارب غریب اور امن کی متلاشی آبادی کا شدت سے مطلوب اس فوری ابلاغی ضرورت کا ترجمان و عکاس ہے لیکن بھارت کی موجود بے لچک بنیاد پرست حکومت خطے میں بھارتی بالادستی کو منوانے اور قائم کرنے کے باہمی ہدف پر ادھار کھائے بیٹھی ہے لیکن انکے احمقانہ تجزیے خطے کے اٹل حقائق کو پاکستان کی باہمی دفاعی ضروریات کے حوالے سے آشکار اور بھارت اور اسکے عالمی منافق معاونین کے مذموم عزائم کو مکمل بے نقاب کرتے نظر آ رہے ہیں اسکا اہتمام بھارتی حملے اور حاصل بیرونی معاونت سے ہو گا۔خاکسار کے اس تجزیاتی نوٹ کے حوالے سے پاکستان کے کمیونیکیشن فرنٹ کے مکمل حقیقت پسندانہ تجزیے کی فوری ضرورت اور اس میں وسعت لاکر مجموعی جنگی حکمت عملی کی تیاری اور عمل میں ان ابلاغی تجزیوں کو استعمال کرنا اہم ترین قومی سلامتی کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ نہ بھولا جائے کہ جنگ ہو رہی ہے جو کچھ عملی و روایتی جنگ کے حوالے سے کر رہے ہیں وہ تمام اقدامات بڑی و سرگرم جنگ کا ابتدائی حصہ ہیں ان میں افواج کی مطلوب ابلاغی معاونت ناگزیر سول سپورٹ جانب سے اولین ہے اگرچہ بھارت کا کمیونیکیشن سیکٹر کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے یہ بھارت کی آئی ٹی کی دھاک اور شائننگ و گروئنگ انڈیا اور میکرو اکانومی میں پاکستان پر واضح برتری و دھاک میں بالکل میچ نہیں کرتی اس وقت بھارتی میڈیا اپنے بہت بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کی کیس سٹڈی تیار کرنے کی طرف پورے جذبے سے حائل ہے یقین جانئے گودی میڈیا کے غلبے کے ساتھ بھارتی مجموعی میڈیا بڑی شدت سے سرگرم تو ہے لیکن وقت کی قومی ضرورت کے برعکس ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر کر رہا ہے لیکن ادھر بھی پاکستانی حکومت کو حاصل قومی ابلاغی معاونت کے اپنے موجود پوٹینشل کے برعکس مین اسٹریم میڈیا کی انتہائی غیر پیشہ ورانہ ’’معاونت‘‘ ابلاغی محاذ پر پاکستان کی برتری قائم نہیں ہونے دے رہی۔ بھارتی میڈیا بے حد درجے پر نااہل ہے اور پاکستانی مجبور ہمارے روایتی مین اسٹریم میڈیا کا موجود مجموعی ملکی دفاعی سلامتی کی ہنگامی اور مکمل پیشہ ورانہ پریکٹس کے برعکس داخلی سیاسی جھمیلوں کے ناروا فریم میں محدود بلکہ جکڑی ہوئی ہے جبکہ پاکستانی روایتی اور اب تو اس سے بڑھ کر سوشل میڈیا کا وقت کی مطلوب ضرورت کے مطابق پوٹنشل بلند درجے پر ہونے کے باوجود ملک کو سلامتی کے چیلنج میں ہر دو (مین و سوشل میڈیا) کے امتزاج سے ابلاغی معاونت کا وہ قومی ذریعہ نہیں بن پا رہا جو ملکی سلامتی کے موجود چیلنج میں فوری درکار ہے۔ واضح وجہ پاکستانی سنجیدہ اور پروفیشل مزاج کا حامل مجموعی سوشل میڈیا بڑے اخلاص اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے بل بوتے پر ایجنڈا سیٹنگ میں جو پوزیشن لئے ہوئے ہے اس میں وہ مکمل طور پر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو اس چیلنجنگ وقت میں جس قومی ابلاغی محاذ قائم کرنے اور مسلح افواج کو اپنی ممکنہ حد تک ابلاغی معاونت فراہم کرنا ناگزیر ہے اس کا سب سے بنیادی تقاضہ ہے کہ پاکستانی عوام کو اپنے قومی جذبے و شعور و بیداری کے مطابق ابلاغی محاذ کو سرگرم کرنے اور اس سے بھی آگے مسلح افواج کے شانہ بشانہ جملہ معاونت کی فراہمی کیلئے سیاسی و حکومتی سمت کا بمطابق آئین درست ہونا ناگزیر ہے ہر دو قومی ابلاغی ذرائع عامہ مین اسٹریم و سوشل میڈیا کی یہ قومی اور پیشہ ورانہ فہم گوئی شرط نہیں آزادی صحافت اور اپنے فریضے کی پریکٹس کو پیشہ ورانہ انداز میں انجام دینے کی بنیادی شرط ہرگز نہیں پروفیشنل کمیونٹی کی بطورا سٹوڈنٹ آف کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سائنس بھرپور تائید کرتا ہے کام حکومت کا ہے کہ وہ پیکا کے پہاڑ کی رکاوٹ کو ختم کرکے وقت اور ملک کے دفاع و سلامتی کے ہنگامی تقاضوں کے مطابق ہر دو کو قومی ابلاغی معاونت کی فراہمی کے لئے ان کی پیشہ ورانہ آزادی کے خلاف اپنی مزاحمت ختم کرکے اپنی آئینی و حلفی ذمے داری پوری کرے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت اسے ہلہ شیری دینے والی بیرونی سرینگر میں موجود بڑی عسکری قوت اور بھارتی پاگل ہوئے میڈیا کی عالم بوکھلاہٹ اور بدنیتی سے بھی صورتحال کی ایک بڑی حساس حقیقت کو عام کرنے سے گریزاں ہے ایسے کہ آزاد کشمیر کو ہدف بنانے والے نئی دہلی کے ہاکس جانتے ہوئےبھی ’’چائینز فیکٹر‘‘ کو اپنے ابلاغ میں نظرانداز کر رہے ہیں جبکہ بند کمروں میں اس پر یقینی حساب کتاب کر رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ آئینی آرٹیکل 370کی بھاجپائی تنسیخ کے بعد چین نے فوری مذمت کے ساتھ اپنے آپ کو متاثرہ فریق بتانے اور جتانے میں دیر نہیں کی تھی پاکستانی ردعمل سے پہلے چینی سرکاری ترجمان اور پھر اعلیٰ حکام اور محتاط میڈیا نے مسئلہ کشمیر میں لداخ کے حوالے سے پہلی بار اپنی انٹری کو واضح کر دیا تھا ہمیں اور کشمیریوں کو جو عملاً کرنا چاہئے تھا وہ تو نہ کر سکے لیکن ابتدائی ردعمل تک نہ دیا جب لداخ سیکٹر میں بھارتی حکومت نے نو گو ایریا کے قریب ترین سڑکوں کی تعمیر پر عمل کیا تو اس کا چینی ردعمل جیسا اور جتنا ہوا مودی حکومت نہ میڈیا کی جرات ہوئی کہ اپنےعوام کو اسکا 10فیصد بھی بتاتے کیا پاکستان نے 370کی تنسیخ کے بعد چینی مشاورت سے اسکردو ایئر بیس تعمیر نہیں کرائی کیا چین و پاکستان بھول گئے ہیں کہ سی پیک کی سرگرمیوں پر ٹرمپ اور مودی کا مکمل ناجائز ردعمل کیا تھا پاکستان کے شمالی علاقہ جات لداخ اور کشمیر کی حفاظت سے ہر دو آہنی اتحادیوں کی سلامتی کے مفادات جڑے ہیں پانی کی بندش پر ہماری لائف لائن کا بیانیہ بھارت کو سمجھ نہیں آ رہا ۔دنیا پر حیات پاکستان کی یہ ناگزیر ضرورت اس کے قدرتی ذریعے اور عالمی گارنٹڈ سندھ طاس معاہدے کی حساسیت کا ابلاغ پوری دنیا پر آشکار کرنا ہماری فوری اور بڑی قومی ابلاغی ضرورت ہے جبکہ بھارت نے جہلم میں پانی چھوڑ کر اور چناب کی روانی میں رکاوٹ ڈال کر آگ سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں پوری دنیا خصوصاً امریکہ اور یورپین یونین پر واضح کرنا اور جتانا ہے کہ ’’واٹر وار‘‘ چھڑ گئی تو یہ کونسی جنگ کی طرف چلی جائے گی اور کیا بھارت POKکی مہم جوئی سے پورے کشمیر کو اتحادی عسکری اڈہ بنانے کی جسارت نہیں کر رہا اس کا آغاز کرنا ہے تو اس سے پہلے گلوبن ویلی کی خاموش چینی مار دھاڑ کو یاد رکھے ۔